ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان (اے پی ایس یو پی) نے وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کے نام خط لکھ دیا جس کہا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے 2002 آرڈیننس کی اصل روح اور مقاصد کو برقرار رکھا جائے، کوئی بھی قانون اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر منظور نہ کیا جائے۔
ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمٰن کی جانب سے لکھے گئے خط میں وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا گیا کہ پیش کردہ بل اور دیگر تمام بل جو ایچ ای سی کے خود مختاری کو محدود کریں، ایسا بل مزید کارروائی کے لیے روکا جائے جو کہ ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
خط میں ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان (اے پی ایس یو پی) او آئی سی، ایچ ای سی اسلام آباد اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اشتراک سے 11 دسمبر کو کامسٹیک اسلام آباد میں تیسری ریکٹرز کانفرنس 2022 کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اس ریکٹرز کانفرنس میں ملک کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے 100 سے زائد وائس چانسلرز اور ریکٹرز نے شرکت کی جس کا اہتمام پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو آگے بڑھانے کا راستہ تجویز کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
کانفرنس کی کارروائی افریقا اور وسطی ایشیا کے برادر اسلامی ممالک کے 30 وائس چانسلرز اور ماہرین تعلیم نے بھی دیکھی، کانفرنس کے پہلے دن ایوان میں قابل ذکر افراد، سرکاری اور نجی شعبے کی یونیورسٹیوں کے 100 سے زائد وائس چانسلرز کے ایک بڑے اجتماع نے ملک میں عمومی طور پر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے ایجنڈے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی خودمختاری پر غور کیا اور خاص طور پر ایچ ای سی پنجاب، ایوان نے متفقہ طور پر ایچ ای سی آرڈیننس 2002 میں ترامیم کی مخالفت کی اور متفقہ طور پر مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایچ ای سی کے آرڈیننس 2002 کی اس کی اصل روح اور مقاصد کو برقرار رکھا جائے۔
دوسرے دن بین الاقوامی طلباء کے لیے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے ساتھ نیٹ ورکنگ کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں سفارشات پیش کی گئیں۔
تحقیقی کانفرنسوں، عالمی نیٹ ورکنگ اور تعلیمی اور تحقیقی فورمز میں پاکستان کے HEIs کی نمائندگی کے لیے وائس چانسلرز اور ریکٹرز کو اکثر بیرون ملک جانا پڑتا ہے۔ تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف بیوروکریٹک چینلز کی وجہ سے انہیں متعلقہ حلقوں سے این او سی اور ویزہ حاصل کرنے میں دشواری اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس طرح کی سرگرمیوں میں وقت ایک اہم عنصر ہے، اس لیے ایوان نے سفارش کی کہ بین الاقوامی روابط کے قیام اور عالمی درجہ بندی میں عالمی شناخت کو یقینی بنانے کے لیے وائس چانسلرز اور ریکٹرز کو سفارتی پاسپورٹ جاری کیے جائیں تاکہ ویزہ کے عمل میں تاخیر سے بچا جا سکے۔
مزید یہ کہ ریکٹرز اور وائس چانسلرز کے حق میں این او سی کی شرط ختم کردی جائے، مختلف غیر ملکی یونیورسٹیوں میں قائم پاکستان چیئرز کے عہدے عرصہ دراز سے خالی پڑے ہیں، اسے فوری بنیادوں پر موزوں فیکلٹی ممبران کی تقرری کے ذریعے پُر کیا جا سکتا ہے۔
سرکاری ملازمین کی طرز پر یونیورسٹی کے فیکلٹی اور آفسرز کے لیے جلد از جلد ایک ٹریننگ اکیڈمی قائم کی جائے تاکہ مستقبل کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹیوں کی گورننس اور مینجمنٹ کو بہتر بنایا جا سکے۔
ایوان نے کہا کہ پاکستانی یونیورسٹیاں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہیں، بین الاقوامی درجہ بندی اس وجہ سے کہ کیمپس میں بین الاقوامی طلباء کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے یا بہت ہی محدود تعداد میں ہیں۔
پاکستان میں بین الاقوامی طلباء کو وزارت داخلہ اور دیگر سرکاری محکموں سے این او سی اور کلیئرنس کے حصول کے لیے 6 ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بین الاقوامی طلباء زرمبادلہ لاتے ہیں اور اگر انہیں خوش اسلوبی سے سنبھالا اور سہولت فراہم کی جائے تو بیرون ملک پاکستان کا سافٹ امیج بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔
اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایوان نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی طلباء کے لیے ویزہ کے عمل کی زیادہ سے زیادہ مدت 15 دن تک کی جانی چاہیے اس کے علاوہ ایوان نے سفارش کی کہ غیر ملکی سرزمین پر موجود پاکستان کے ہر سفارت خانے میں ایک فیسیلیٹیشن ڈیسک قائم کیا جائے۔
ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان کا قیام ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے قومی مقصد پر ماہرین تعلیم کو اکٹھا کرنے کے وژن کے ساتھ کیا گیا ہے۔
تیسری ریکٹرز کانفرنس نے مشاہدہ کیا کہ سرکاری اور نجی شعبے کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور ریکٹرز پاکستان کی معیشت کی ترقی اور علمی بنیاد کو مضبوط بنانے کے راستے پر مشترکہ اور متفقہ خیالات رکھتے تھے۔
کانفرنس کی تفصیلی رپورٹ اور وائٹ پیپر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آگے بڑھنے کے راستے کے طور پر حکومت کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔
سفارشات آپ کے مشورے کے لیے پیش کی گئی ہیں، آپ کی سرپرستی کے منتظر ہے۔
Comments are closed.