بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ایک صحافی، پانچ خودکش حملے: ’حملہ آور کے جسم کے ٹکڑے گاڑی پر گِرے‘

صومالیہ: پانچ خودکش حملوں میں بال بال بچنے والے محمد معلمو تشدد سے متاثرہ شہر میں رہنے پر کیوں مُصِر ہیں؟

محمد معلمو

،تصویر کا ذریعہMOhammad Moalimo

،تصویر کا کیپشن

محمد معلمو نے برس ہا برس صومالیہ سے بی بی سی کے لیے رپورٹنگ کی تھی

گذشتہ دنوں صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ایک ایسے شخص کو نشانہ بنایا گیا جو اس سے پہلے چار مختلف خودکُش حملوں میں بال بال بچے تھے۔ بی بی سی ورلڈ سروس افریقہ کی مدیر میری ہارپر نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پانچ خودکش حملوں کے باوجود محمد معلمو تشدد سے متاثرہ اِس شہر میں رہنے پر کیوں مُصِر ہیں۔

Presentational grey line

میرے فون میں ضروری معلومات کی ایک فہرست محفوظ ہے۔ میرے پاسپورٹ نمبر اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیل کے بالکل اوپر ایک نام ’معلمو‘ درج ہے، اس کے ساتھ نمبر 16.5 اور یہ الفاظ ’نیلے پیٹرن اور سفید کو پسند کرتے ہیں‘ درج ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب کیا ہے۔ ’16.5‘ میرے پیارے دوست محمد ابراہیم المعلمو کی شرٹ کے گلے کا سائز ہے اور ’نیلے پیٹرن اور سفید‘ اُن کے پسندیدہ رنگ ہیں۔ محمد ابراہم صومالیہ میں بی بی سی کے رپورٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔

میں جب بھی موغادیشو جاتی ہوں تو معلمو کے لیے شرٹس خریدتی ہوں۔

معلمو کو نیلے اور سفید ڈیزائن والی شرٹس پسند ہیں۔

مجھے لندن کی جرمین سٹریٹ جانا اچھا لگتا ہے جو خوش لباس لوگوں میں کپڑوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ میں صحیح چیز کی تلاش میں درجنوں رنگوں، نمونوں اور ڈیزائنز میں سے شرٹس کا انتخاب کرتی ہوں۔

درحقیقت میرے پاس اگلی بار صومالیہ جانے کے لیے سوٹ کیس میں ایسی دو شرٹس پہلے سے موجود ہیں۔

قمیضیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

محمد معلمو کو سفید اور نیلے رنگ کے ڈیزائن والی شرٹس پسند تھیں

مسئلہ یہ ہے کہ اب معلمو وہاں نہیں ہیں۔ وہ ترکی کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ان پر ہونے والے حالیہ خودکش حملے میں وہ زخمی ہوئے تھے جس کے بعد اُنھیں ایک چھوٹے سے طیارے میں ترکی کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔

گذشتہ اتوار کو معلمو پانچویں بار خودکش حملے میں زخمی ہو گئے، اس بار وہ براہ راست نشانہ تھے۔

ایک خودکش حملہ آور ان کی گاڑی کے قریب اس جگہ پہنچا جہاں معلمو بیٹھے تھے اور اس کے بعد اس نے خود کو اڑا دیا۔

اس حملے کے نتیجے مںی گاڑی ملبہ بن گئی اور حملہ آور کے جسم کے چیتھڑے اڑ گئے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ معلمو کیسے بچ گئے؟ اس حملے کے نتیجے میں اُن کی ایک ٹانگ ٹوٹی، سینے پر اور جسم کے دیگر حصوں پر زخم آئے لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنے ہوش و حواس میں ہیں۔

معلمو سے پہلی ملاقات میں پہلی چیز جو آپ نوٹ کریں گے وہ اُن کے چہرے پر موجود خوفناک نشانات ہیں۔ یہ سنہ 2016 میں ان پر ہونے والے ایک خودکش حملے کے زخموں کے نشان ہیں۔

وہ سمندر کے کنارے واقع اپنے پسندیدہ ریستوران میں موجود تھے۔ اسلامی عسکریت پسند گروپ ’الشباب‘ کے جنگجوؤں نے ساحل سمندر کی جانب سے دھاوا بول دیا اور کئی گھنٹوں تک انھوں نے اس جگہ کا محاصرہ کیے رکھا۔

معلمو اپنے ہی خون میں لت پت بے حس و حرکت پڑے رہے اور یوں حملہ آوروں کے سامنے موت کا ڈرامہ کر کے وہ جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ کس طرح حملہ آور ان کے جسم پر لاتیں مارتے رہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ مر چکے ہیں۔ ان کے ساتھ موجود دیگر افراد جو لاتیں لگنے کے نتیجے میں ہلتے جلتے، اُنھیں گولی مار دی جاتی تھی۔

انھیں مکمل طور پر صحت یاب ہونے کے لیے صومالیہ، کینیا اور برطانیہ میں کئی مہینوں تک زیرِ علاج رہنا پڑا۔ اصل ڈر انھیں اپنی بینائی کے کھو جانے کا تھا۔

’حملہ آور کے ٹکڑے گاڑی پر گرے‘

معلمو نرم مزاج، نرم گو اور پُرسکون رہنے والے انسان ہیں۔

موغادیشو کے بیشتر رہائشی پُرجوش، بلند آواز میں بات کرنے اور ہیجانی طبیعت کے مالک ہیں۔ اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ شہر گذشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے حالت جنگ میں ہے۔

میں موغادیشو میں تھی جب معلمو پر پہلا خودکش حملہ ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

یہ جون 2013 میں تھا جب الشباب نے اقوام متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں گھس کر حملہ کیا۔ یہ حملہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا اور بہت سے لوگ اس حملے میں ہلاک ہوئے۔

صومالیہ

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

معلمو کی کار پر ہونے والا خودکش حملہ جس میں ان کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی

جب عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تو معلمو گاڑی میں اس جگہ سے گزر رہے تھے۔ ایک خودکش حملہ آور کے جسم کے ٹکڑے ان کی گاڑی کے شیشے پر گرے اور ونڈ سکرین ٹوٹ گئی۔

اپنے مخصوص سادہ انداز میں معلمو نے اپنی گاڑی کی ٹوٹی ہوئی ونڈ سکرین دکھائی۔ انھوں نے حملے کے بعد اپنی گاڑی کی ایک بھیانک تصویر بھی کھینچی تھی۔

انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ بی بی سی اُن کی گاڑی کی ونڈ سکرین کی مرمت کے لیے پیسے ادا کر دے گا؟

اس سب کے بعد بھی وہ کام کرتے رہے۔ رپورٹنگ، جیسا کہ وہ اکثر اپنے آبائی شہر میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بارے میں کرتے تھے۔

بی بی سی صومالیہ کی صورتحال کا مکمل احاطہ معلمو جیسے لوگوں کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔

اب وہ ایک حکومتی ترجمان کے طور پر کام رہے ہیں، لیکن جب وہ بی بی سی کے ساتھ تھے تو اپنی رپورٹنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ مجھ جیسے لوگوں کو تمام معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔

مزید پڑھیے

آج تک جب بھی میں نے انھیں فون کرتی ہوں وہ اپنی فہرست کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں کہ اس دن کیا ہوا تھا۔ قتل، دھماکے، سیاسی لڑائی وغیرہ وغیرہ۔

وہ ایسا اُس وقت بھی کرتے تھے جب میرے فون کرنے کا مقصد اُن سے یہ پوچھنا ہوتا ہے کہ میں اُن کے لیے کس قسم کی شرٹس لاؤں۔

صحافت کے گمنام ہیرو

جب معلمو بی بی سی کے لیے کام کرتے تھے تو اُنھیں اور ایک دوسرے شخص کو صومالیہ جانے سے پہلے ہمیشہ فون کرتی تھی۔

اگر معلمو نے کہا: ’مت آنا‘ تو میں نہیں جاتی تھی، باوجود اس کے کہ صورتحال بظاہر پُرامن لگتی تھی۔ اگر معلمو نے کہا: ’آ جاؤ‘ تو میں چلی جاتی تھی چاہے سکیورٹی صورتحال جتنی بھی گھمبیر ہو۔

میں معلمو پر بھروسہ کرتی تھی۔ وہ صحافت کے پیشے کے گمنام ہیروز میں سے ایک تھے۔

میری ہارپر اور محمد معلمو

،تصویر کا ذریعہMary Harper/bbc

،تصویر کا کیپشن

معلمو نے میری ہارپر (بائیں) کو صومالی تنازع کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد کی

میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ایک جرات مند اور نڈر رپورٹر پر صحافت کا اتنا زیادہ انحصار کیوں ہے جبکہ اکثر بہت سے دوسرے لوگ بھی اس پیشے سے منسلک ہوتے ہیں۔

پروڈیوسر، کیمرا پرسن، ساؤنڈ پرسن اور شاید سب سے اہم مقامی صحافی جنھیں کبھی کبھی ’فکسر‘ بھی کہا جاتا ہے، جو بہت کچھ جانتے ہیں اور جن پر ٹیم تقریباً مکمل طور پر انحصار کر رہی ہوتی ہے۔

معلمو ایک ایسے ہی شخص ہیں جیسے کہ بہت سے دوسرے صومالی صحافی ہیں جن کے ساتھ میں کام کرتی ہوں اور جو ہر روز اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

معلمو نے جب صحافت کا پیشہ ترک کر دیا اور حکومتی ترجمان بن گئے تو میں نے انھیں بتایا کہ ان کے فیصلے سے میں کس قدر مایوس ہوئی ہوں۔

کس طرح ایک دیانت دار، سچا اور کھرا صحافی لکیر کے دوسری طرف جا سکتا ہے۔

ہمیشہ کی طرح ان کا جواب بڑا نپا تُلا تھا۔

’میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔ میں بطور صحافی ایسا نہیں کر سکا۔ مجھے اب نظام کے اندر رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں پارلیمان کا رُکن بننا چاہتا ہوں اور اس سمت میں یہ میرا پہلا قدم ہے۔‘

نئی نوکری اختیار کرنے کے بعد میرا اُن کے ساتھ تعلق زیادہ رسمی ہو گیا۔

ان کی شرٹس بھی زیادہ رسمی ہو گئی ہیں۔ وہ کلف زدہ سفید ہو گئیں کیونکہ انھیں اب سمارٹ سوٹ پہننے کی ضرورت تھی۔

لیکن جب بھی میں جرمین سٹریٹ سے گزرتی ہوں، میں ہمیشہ ان کے لیے شرٹس خریدنے کے بارے میں سوچتی ہوں، ان کی پُرسکون اور نرم شخصیت سے مطابقت رکھنے والے رنگوں اور ڈیزائن کی شرٹس۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.