فاک لینڈز جنگ: ایک جنگی قیدی اور اُن کے محافظ میں ہونے والی غیرمعمولی دوستی کی داستان
- نیل پرائر
- بی بی سی نیوز
جیورجیو اور عرفون دونوں کے درمیان جنگ کے دوران دوستی ہوئی
سنہ 1982 میں برطانیہ اور ارجنٹینا کے درمیان ایک غیراعلانیہ جنگ لڑی گئی تھی جو دس ہفتوں تک جاری رہی جسے فاک لینڈز کی جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جنگ کے انھی دنوں میں ارجنٹینا کے ایک فوجی برطانوی قید میں آ گئے۔
برطانوی قید میں ارجنٹینا کے اس جنگی قید اور اُن کے برطانوی محافظ کے درمیان ایک رات بیئر پیتے اور رگبی کا میچ دیکھتے ہوئے دوستی ہو گئی۔
عرفون ہیگز نامی برطانوی محافظ ’ایس ایس کینبرا‘ نامی اس بحری جہاز پر تعینات ایک برطانوی فوجی تھے، جنھیں ارجنٹینا کے ساڑھے چار ہزار جنگی قیدیوں کی نگرانی پر معمور کیا گیا تھا۔
ایک رات جب عرفون نے اِن جنگی قیدیوں سے پوچھا کہ کیا کسی کو انگریزی زبان بولنی آتی ہے؟ تو جیورجیو پوڈسیٹ نامی ایک جنگی قیدی کا جواب ہاں میں تھا۔
اس واقعے کے لگ بھگ چالیس برس بعد برطانوی فوجی عرفون کہتے ہیں ’اب میں اُن (جیورجیو پوڈسیٹ) کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔‘
محافظ اور قیدی کے درمیان اس غیرمعمولی دوستی کی کہانی کو ایک کتاب میں رقم کیا جا چکا ہے جو اُس غیراعلانیہ جنگ پر برائن شارٹ نامی مصنف نے ’دی بینڈ دیٹ ونٹ ٹو وار‘ کے عنوان سے تحریر کی تھی۔
عرفون جس دن جیورجیو سے ملے تھے اس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’میں کینبرا (بحری جہاز) میں 4500 جنگ قیدیوں کی نگرانی کر رہا تھا اور ان کو دس دس کے گروپ میں نہانے کے لیے لے جا رہا تھا۔‘
’یہ ایسا ہی تھا جیسے میں کسی ریوڑ کو لے کر جا رہا ہوں، تو میں زور سے چلایا ’تم میں سے کوئی انگریزی بول سکتا ہے۔‘
’جیورجیو نے کہا کہ میں بول سکتا ہوں‘، بس اس دن کے بعد سے وہ قیدی عرفون کا مترجم اور مدد گار بن گیا۔
عرفون جو کینبرا پر سوار تھے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے جنگ میں بچ جانے کی کوئی امید نہیں تھی۔
جیورجیو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بچپن میں انگریزی زبان سیکھنے سے بھاگتے تھے لیکن ساری جنگ کے دوران انگریزی ان کے بہت کام آئی۔
برطانوی فوج کو توقع نہیں تھی کہ یہ جہاز جنگ کے دوران دشمن کے حملوں سے بچ پائے گا
جیورجیو کا کہنا تھا کہ ’میری والدہ مجھے زبردستی انگریزی پڑھنے بھیجتی تھیں کہ کسی دن یہ تمہارے کام آئے گی۔‘
’میں خوش تھا کہ میں عرفون سے انگریزی میں بات کر رہا تھا اور جنگ کی سختیوں کے بعد میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر رہا تھا، کیونکہ مجھے کھانا مل رہا تھا اور دیگر قیدیوں کی نسبت میں آرام میں تھا۔‘
سنہ 1982 کے ایسٹر تہوار کے دن رائل میرین کمانڈو بینڈ میں سیکسافون بجانے والے عرفون اپنی ریجمنٹ کی طرف سے برطانیہ کے شہر پلیمتھ میں رگبی کھیل رہے تھے جب انھیں میدان سے باہر بلا کر ایک اہم پیغام دیا گیا۔
انھیں برطانوی ٹاسک فورس کے ساتھ فاک لینڈز جنگ کی غرض سے بھیجا جا رہا تھا۔
فاک لینڈز جزائر جسے ارجنیٹینا میں ’ماوینس‘ کہا جاتا ہے اور جسے وہ اپنا حصہ تصور کرتا ہے وہاں اس (ارجنٹینا) نے اپنی فوج اُتار دی تھی۔
عرفون جن کا تعلق برطانیہ کے علاقے ویلز سے ہے، کا کہنا تھا کہ ’جب آپ کسی کو بتائیں کہ آپ فوج میں ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ آپ بہت سخت جان ہوں گے۔ لیکن میں تو ایک موسیقار ہوں، ایک باقاعدہ فوجی نہیں تو جب مجھے جنگ میں جانے کے لیے بلایا گیا تو میں بہت حیران ہوا۔‘
’میں کافی پُرجوش بھی تھا اور ابتدائی چند ہفتوں میں جب تک میں ایسنشن جزیرے پر نہیں پہنچا یہ سب کچھ ایک خواب سا لگ رہا تھا۔‘
لیکن جنگ پر جانے سے پہلے عرفون کو ایک اہم مسئلہ حل کرنا تھا۔
ان کی شادی ہونے والی تھی اور وہ اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ شادی کا بندھن باندھے بنا جنگ پر نہیں جانا چاہتے تھے۔
’ہمیں ہنگامی بنیادوں پر لائسنس ملا اور میں نے جانے سے پہلے مئی کے مہینے میں شادی کر لی اور کوئی بھی میرا ساتھی شادی میں شریک نہیں ہو سکا، کیونکہ سمندری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہم سب بیرکس تک محدود تھے۔‘
یہ بھی پڑھیے
پہلے کچھ ہفتے تو وہ بحری سفر کے دوران صرف جہاز کے عشرے پر دھوپ سینکتے رہے۔
جس طرح سے نصف کرۂ شمالی کی گرمی سے نصف کرۂ جنوبی کی سردیوں کی طرف بڑھے، موسم کی تبدیلی کے ساتھ کینبرا بحری جہاز پر سوار لوگوں کے مزاج بھی تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔
چالیس سال بعد بھی دوستی برقرار ہے
انھوں نے کہا کہ ’ابتدا میں تو ہمیں لگا کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ پی اینڈ او سیاحتی کمپنی کے بحری جہاز پر سفر کر رہے ہیں اور وہاں ہمیں ایسی آسائشیں میسر تھیں جس کے مزے ہم میں کسی نے پہلے نہیں اٹھائے تھے۔‘
’یہ جہاز بحیرہ روم کے ایک سفر سے واپس لوٹا تھا، تو اس کے بال رومز، فانوس اور اس میں موجود خوراک اور مشروبات سے لگتا تھا کہ یہ سب کسی اور دنیا کے ہیں۔‘
’لیکن جب ہم سان کارلوس ساؤنڈ میں داخل ہوئے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم کس قدر خطرے میں ہیں۔‘
آسان ہدف
کیونکہ کینبرا کو بحریہ میں شامل کیا گیا تھا مگر اس پر دفاع کا کوئی نظام موجود نہیں تھا، صرف چند مشین گنز تھیں اور کاندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے راکٹ تھے، جو پیراشوٹ ریجمنٹ کے پاس تھے۔
یہ بحری جہاز جلد ہی ارجنٹینا کی فضائیہ کے حملوں کی زد میں آ گیا۔
عرفون کا کہنا تھا کہ ویسے تو اس جہاز کو بحری ہسپتال کے طور پر استعمال کیا جانا تھا لیکن کیونکہ اس کو فوجیوں کو لے جانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا تھا اس لیے یہ جینیوا کنونشن کے تحت حاصل تحفظ کا حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔
ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں فاک لینڈ جنگ کی یادگار پر
’ہم واقعی سٹنگ ڈکس کی طرح تھے اور جنگ کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ برطانوی حکومت کو کسی حد تک یقین تھا کہ جنگ کے ابتدائی دنوں ہی میں کینبرا تباہ ہو سکتا ہے اور انھیں ڈر تھا کہ ہم سب مارے جائیں گے۔‘
پیرا شوٹ ریجمنٹ کو اُتارنے کے بعد کینبرا جنوبی جارجیا کی طرف سفر پر روانہ ہوا جہاں اسے ویلش گارڈز اور گورکھا کو فاک لینڈز پہنچانا تھا۔
جب لڑائی شروع ہوئی تو اس جہاز پر ہیلی کاپٹروں میں بھر بھر کے زخمی برطانوی فوجی اور ارجنٹینا کے پکڑے جانے والے فوجی لائے جانے لگے۔
عرفون کا کہنا تھا کہ ’جس طرح کے برطانوی زخمی فوجی لائے جا رہے تھے اس کے بعد اس تمام تر صورتحال کا غصہ ارجنٹینا کے فوجیوں پر نکالنے سے اپنے آپ کو روکنا بہت مشکل تھا۔‘
’جے پی آر اینڈ جے جے‘
لیکن جب دشمنوں کے درمیان تلخیاں بڑھ رہی تھیں تو اسی دوران ایک دوستی بھی جنم لے رہی تھی۔
عرفون نے کہا کہ ’جب قیدی سے میری بات چیت شروع ہوئی اور ہم نے ویلش رگبی ٹیم ’جے پی آر اینڈ جے جے‘ کی بات کی تو مجھے احساس ہوا کہ بہت سے برطانوی فوجیوں سے زیادہ تو میری بہت سی دلچسپیاں اس شخص سے ملتی ہیں۔
’ان جنگی قیدیوں میں بہت سے خصوصی دستوں میں شامل سخت جان فوجی تھے گو کہ کچھ جیورجیو کی طرح فوج میں اپنی مرضی کے خلاف بھرتی کر لیے گئے تھے۔ ایک رات میں نے چپکے سے اسے قیدیوں کے مخصوص ہال سے نکال کر رگبی پر گپ لگانے اور بیئر پینے کے لیے اپنے کیبن میں لے آیا۔
جیورجیو نے بتایا کہ اس رات بات لوس پوما اور ویلز کے درمیان 1976 میں ہونے والے میچ پر مرکوز رہی جس میں ویلز نے آخری لمحات پر فل بینٹ اور عہد ساز کھلاڑی گیرت ایڈورڈز اور فل بیک جان پیٹر اور رائن ولیمز نے پینلٹی کک لگا کر میچ جیت لیا تھا۔
جیورجیو نے بتایا کہ ’ہم نے اپنے گھروں، رشتہ داروں اور دستوں کے بارے میں بات کی۔ اس خواہش کا اظہار کیا کہ جلد از جلد گھر لوٹ جائیں۔ اس موقع پر عرفون نے مجھے اپنے ساتھ کیبن میں رہنے والوں سے متعارف کروایا۔ اور ہمارے چہروں پر مسکراہٹ لوٹ آئی تھی۔‘
اس رات کے بعد سے عرفون اور جیورجیو دوست بن گئے۔ لیکن ان کی دوستی صرف بیئر اور کھیل کی وجہ سے نہیں ہوئی۔
مصنف برین شارٹ جو اس وقت کینبرا جہاز پر موجود تھے انھوں نے بتایا کہ ’وہ اور جیورجیو دونوں جس بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ دونوں نے مل کر جہاز پر بغاوت ہونے سے روکی تھی۔‘
’پیٹرو میڈرائن جاتے ہوئے جیورجیو نے عرفون کو خبردار کیا کہ ارجنٹینا کے فوجی جہاز پر زبردستی قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ عرفون اور میں نے راہداری کے دونوں طرف مشین گن لے کر کھڑے ہو گئے اور آخر کار کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی۔‘
الوداع
عرفون اور جیورجیو نے کارڈف اور ارجنٹینا کے دارالحکومت میں فاک لینڈز جنگ کی یاد میں بنائے گئے عجائب گھروں کا دورہ کیا اور تصاویر بنائیں۔ بہتر دنوں تک جاری رہنے والی مختصر جنگ کے بعد برطانوی فوج ارجنٹینا کی فوج کو فاک لینڈز سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔
کینبرا نے جب جولائی 1982 میں جنگی قیدیوں کو پیٹرو میڈرن پر اُتار جو ارجنٹینا کا وہ علاقہ ہے جہاں ویلز کی زبان ویلش بولی جاتی ہے تو بحریہ کے ایک فوٹو گرافر نے عرفون اور جیورجیو کی ایک تصویر بنائی جو بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔
دونوں دوستوں کے درمیان ارجنٹینا اور ویلز میں خطوں کی ترسیل میں دقت کی وجہ سے کچھ برس بعد رابطہ نہیں رہا لیکن عرفون کی بیوی جان نے آخر کا جیورجیو کو ڈھونڈ نکالا۔
عرفون نے بتایا کہ وہ جیورجیو سے ملنے جا چکے ہیں اور وہ بھی ویلز آ چکا ہے۔ ’اب میں اس کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔‘
برائن شارٹ میں ان کی دوستی کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ ایسی دوستیوں کی کہانیاں درج ہیں۔ گو کہ جنگ سے بہت زیادہ تباہ کاری ہوئی اور جانی نقصان ہوا لیکن انھوں نے اس کتاب میں جنگ کی افراتفری اور تباہی کے دوران ہونے والی مثبت چیزوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
Comments are closed.