بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ایوکاڈو: وہ قیمتی پھل جسے چوروں سے بچانے کے لیے کسان محافظ رکھتے ہیں

ایوکاڈو: وہ قیمتی پھل جسے چوروں سے بچانے کے لیے کینیا کے کسان محافظ رکھتے اور کیمرے لگاتے ہیں

  • ایمینول اگنزا
  • بی بی سی نیوز، کینیا

An avocado picker in Kenya

کینیا میں ایوکاڈو نامی پھل کا کاروبار اتنا منافع بخش ہو چکا ہے کہ منظم جرائم پیشہ گینگ کے کارندے اس پھل کی کاشت کرنے والے کسانوں کو نشانہ بنانے لگے ہیں۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایوکاڈو کے صرف ایک درخت سے حاصل ہونے والے پھل کی مالیت لگ بھگ 600 امریکی ڈالر یا 450 برطانوی پاؤنڈ بنتی ہے۔

امریکہ اور یورپ میں اس پھل کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے اور گذشتہ برس کینیا، جنوبی افریقہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ ایوکاڈو برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔

کینیا میں ایوکاڈو کے درختوں کی حفاظت کے لیے اب کسانوں اور محافظوں کے گروپ بنائے جا رہے ہیں، جنھیں ’گرین گولڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے، مورنگا کی وسطی کاؤنٹی کے ایک بڑے فارم پر موٹے موٹے برساتی کوٹوں میں ملبوس، ٹارچ اور چاقو اٹھائے، چھ افراد اپنی شفٹ شروع کرتے ہیں۔

انھیں اس فارم اور یہاں اگائے جانے والے قیمتی پھل ایوکاڈو کی حفاظت کے لیے رکھا گیا ہے۔

کینیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ایک خطرناک کام ہے جس میں لوگوں کے زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ جان جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔

ایوکاڈو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حال ہی میں ایک مشتبہ ایوکاڈو چور کی ہلاکت کے متعلق بات کرتے ہوئے، ان چھ افراد میں سے ایک نے مجھے بتایا ’یا وہ بچ سکتے تھے یا ہم، اور بدقسمتی سے ہمیں اپنی حفاظت کرنی پڑی (یعنی چور کو مارنا پڑا)۔‘

یہ فارم تقریباً آدھے ایکڑ پر مشتمل ہے۔ فارم کے مالک کا کہنا ہے کہ چور پھلوں کے پیچھے ہی پڑ گئے تھے، لہٰذا انھیں ایکشن لینا پڑا۔

چوروں کی جانب سے فارم میں جس جگہ سے حفاظتی باڑ کو کاٹا گیا تھا، اس جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’آپ پورے فارم پر باڑ لگا بھی لیں تو یہ انھیں روک نہیں پائے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

’آپ پورا موسم اپنے درختوں کی دیکھ بھال میں گزارتے ہیں، پھر ایک ہی رات میں چند گھنٹوں کے اندر اندر سارے پھل چوری ہو جاتے ہیں۔‘

باڑ کی مرمت کرنے والا شخص فارم کے مالک سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہے ’وہ اب بھی اسے کاٹیں گے اور جو چاہیں گے چوری کریں گے۔‘

وہ کمیونٹی کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں فکرمند ہیں کیونکہ یہاں بہت سے لوگوں کا گزارا ایوکاڈو کی برآمد پر منحصر ہے۔ بہت سے افراد پھلوں کے بڑے فارموں پر ملازمت کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تر خاندانوں کے پاس اپنے درخت بھی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم سوتے رہ گئے تو ہمارے والدین کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہو گا۔‘

Avocado trees

ان کی چوکیداری طلوعِ آفتاب کے وقت ختم ہوتی ہے۔

کینیا میں فروری اور اکتوبر کے درمیان ایوکاڈو کو درختوں سے اتارا جاتا ہے مگر چور کچے پھل چوری کر رہے ہیں۔

بلیک مارکیٹ پر قابو پانے کی کوشش میں، حکام نے نومبر سے جنوری کے آخر تک ایوکاڈو کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔

لیکن اس پابندی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ حقیقت میں مورنگا کاؤنٹی کے کسانوں کو اپنی فصل، ایوکاڈو چوری کرنے والے گینگز سے بچانے کے لیے جلدی درختوں سے اتارنا پڑ رہا ہے۔

انھیں درختوں پر چھوڑنا چوروں کو دعوت دینے جیسا ہے۔

ڈرون کا استعمال

تقریباً 100 کلومیٹر شمال کی جانب میرو کاؤنٹی میں صورتحال مزید خراب ہے۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے، یورپی خریدار علاقے میں موجود تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کینیوا مبروگو کے فارم کی طرح یہاں کے کسانوں کو بھی وقت سے پہلے، پھل درخت سے اُتارنے کی اجازت ہے۔

چنانچہ ایک ہی دن میں، ہزاروں ہیکٹر رقبے سے ایوکاڈو کو درختوں سے اتار لیا جاتا ہے۔ جس میں سے ہر ایک پھل 19 کینیائی شلنگز (یعنی 0.17 ڈالر یا 0.12 پاؤنڈ) میں فروخت ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے

مقامی ڈسٹری بیوشن سینٹر میں ان پھلوں کا معیار یقینی بنانے کے لیے لگایا جاتا ہے، کیونکہ وقت سے پہلے درختوں سے اُتار لینے کی صورت میں پھل ہرگز نہیں پکیں گے۔

چوروں سے بچنے کے لیے مبروگو نے پھلوں کو وقت سے قبل درختوں سے اتارنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن مستقبل میں ان کا ارادہ ہے کہ وہ مقامی ایوکاڈو کوآپریٹو سوسائٹی سے خریدے گئے کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے، گینگز کا مقابلہ کریں گے۔

ایوکاڈو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اور اس کے لیے وہ اس کمپیوٹر کو ان سی سی ٹی وی کیمروں سے منسلک کر دیں گے جنھیں وہ اپنے 10 ایکڑ زیر کاشت رقبے کے فارم کے ارد گرد لگا رہے ہیں۔

اپنے آرام دہ کمرے سے وہ اپنے 200 سے زیادہ درختوں پر نظر رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور اس کام میں ان کی مدد ان کا ٹیکنالوجی کے متعلق علم رکھنے والا بیٹا کر رہا ہے۔ انھوں نے فلمنگ میں گریجویشن کر رکھی ہے۔

مبروگو بتاتے ہیں کہ ’میرا بیٹا فارم کے اردگرد ڈرون اڑانے کے بارے میں سوچ رہا ہے تاکہ ہم اپنے فارم کی 24 گھنٹے نگرانی کر سکیں۔‘

میں نے ان سے پوچھا ’کیا یہ مہنگا نہیں ہے؟‘

’نہیں، نہیں۔۔۔ اس سے جتنی بچت ہو گی وہ ثابت کرے گی کہ ڈرون خریدنے کا فیصلہ درست تھا۔‘

موب جسٹس (ہجوم کا انصاف لینے کا طریقہ)

جس وقت ہم ان سے بات کر رہے ہیں انھیں ایک فون کال موصول ہوئی۔ چوکیداروں نے کئی ایسے مشتبہ افراد کو پکڑا تھا جنھوں نے میرو شہر کے وسط میں ایک مکان کرائے پر لیا تھا۔ یہ افراد پھل چوری کرنے والے گینگ کا حصہ تھے۔

بعد میں جولیس کنوٹی، جو پڑوس میں نگرانی کرنے والی سیکیورٹی ٹیم کے سربراہ ہیں، بتاتے ہیں کہ یہ مکان چوری شدہ ایوکاڈو کی بوریوں سے بھرا ہوا تھا۔

وہ پولیس کو اس بارے میں اطلاع دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ حکام کو اس بارے میں مزید کارروائی کی ضرورت ہے ورنہ لوگ معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔

’جس رات ہم نے ان چوروں کو پکڑا، اگر اس وقت میں نے لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لیے سیٹی بجائی ہوتی تو گاؤں والوں نے آ کر انھیں مار ڈالنا تھا۔۔۔ کیونکہ لوگوں میں ان چوروں کو لے کر بہت غصہ ہے۔‘

کینیا میں ایوکاڈو کی تجارت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ کسان ایوکاڈو کے درخت لگانے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

وزارت تجارت کے مطابق، گذشتہ برس اس پھل کی کل فصل کا تقریباً 10 فیصد برآمد کرنے سے کینیا کے کسانوں کو 132 ملین ڈالر (100 ملین پاونڈ) کی آمدن ہوئی۔

مبروگو کہتے ہیں ’اگر ہم پھل کا معیار بہتر بنا لیں تو یقیناً برازیل جیسے بڑے ممالک کے برابر پہنچ جائیں گے۔‘

’مجھے نہیں لگتا کہ اگلے پانچ سالوں میں یہاں کے لوگ چائے کاشت کریں گے۔ ایوکاڈو ہی مستقبل ہے۔‘

چند سال پہلے انھوں نے اپنے چائے کے باغات کو اکھاڑ پھینکا تھا اور انھیں اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایوکاڈو چوری کرنے والے گینگر سے اپنے پھلوں کو بچا سکیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.