اینگلا مرکل کی وراثت: ’یورپ کی ملکہ‘ جن کا تاج ذرا داغدار ہو چکا ہے
- کیٹیا ایڈلر
- یورپ ایڈیٹر
گذشتہ 16 برسوں کے دوران انگیلا مرکل نے یورپی یونین کو متعدد بحرانوں سے نکلنے میں مدد دی
اینگلا مرکل کو کبھی ’یورپ کی ملکہ‘ بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن اب جب جرمنی کی طاقتور چانسلر رواں ماہ ہونے والے انتخابات کے بعد سیاست کو خیر آباد کہنے والی ہیں، مجھے یقین نہیں ہے کہ ’یورپ کی ملکہ‘ کا لاحقہ اُن کے نام کے ساتھ قائم رہے گا۔
یہ سچ ہے کہ انگیلا مرکل یورپی اتحاد کے موجودہ رہنماؤں میں سب سے زیادہ عرصے تک خدمات سرانجام دینے والی لیڈر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انھوں نے یورپی یونین کے تقریباً سو کے قریب اجلاسوں میں شرکت کی ہے اور انھیں اکثر ’کمرے میں اکلوتی بالغ‘ (یعنی میٹنگ میں موجود سمجھ دار شخصیت) کے طور پر بھی بیان کیا جاتا تھا۔
یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے پناہ گزینوں کے بحران، یورو کرنسی کے بحران ، کسی حد تک کووڈ 19، یہاں تک کہ بریگزٹ کے بحران میں بھی یورپی اتحاد کو آگے بڑھانے میں مدد کی ہے۔
لیکن یہ دو شخصیات کی کہانی ہے جو ایک جسم میں سمائی ہوئی ہیں۔
ان کی یورپی میراث بھی ان کی اندرون ملک میراث کی طرح ملی جلی ہے۔ اندرون ملک ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ جرمنی کی قیادت کے 16 طویل سالوں کے دوران وہ ایک کریسن مینجرین (جرمن زبان کا لفظ) یا بحران کی منیجر رہیں، جو عام طور پر آخری لمحے تک انتظار کرتیں اور ردِ عمل دیتیں۔ ان کے یورپی سٹیج کے ریکارڈ کو کچھ اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ عملیت پسند ضرور تھیں لیکن دور اندیش بالکل نہیں۔
اور جب اینگلا مرکل سیاست چھوڑ جائیں گی تو بہت دیر تک یہ تاثر قائم رہے گا۔
یورپی یونین کی مشکل کُشا
ممکنہ طور پر عملیت پسند مرکل نے یورپی یونین کو متعدد بحرانوں سے نجات دلانے میں مدد کی ہے۔
لیکن مستقبل کے متعلق بصیرت سے محروم مرکل اگر اپنی طویل المدتی پوزیشن کو یورپی یونین کی امیر ترین اور بااثر قوم کی رہنما کے طور پر زیادہ فیصلہ کن طریقے سے استعمال کرتیں تو بلاک اتنا کمزور اور اتنا زیادہ بے ہنگم نہ ہوتا۔
ذرا سنہ 2015 کے یورو زون کے بحران کو ہی لے لیں۔ یہاں تک کہ یونان کے جوشیلے لیکن قلیل المدتی وزیر خزانہ، یانیس واروفاکِس، بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیلا میرکل نے اقتصادی بحران کے باوجود ان کے ملک کو یورو میں رکھ کر اسے بچایا۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’یہ سچ ہے کہ بالآخر وہ ہی یورو زون کو ایک ساتھ رکھنے کی ذمہ دار تھیں کیونکہ اگر یونان اس سے نکلتا تو میں نہیں سمجھتا کہ اسے متحد رکھنا ممکن ہوتا۔‘
’لیکن مجھے کچھ پالیسیوں سے شدید اختلافات ہیں جن کی وہ پیروی کرتی ہیں۔ یورو زون کے بارے میں ان کا کبھی کوئی ویژن نہیں تھا۔ یورو زون کو بچانے کے بعد اس کے ساتھ کیا کرنا ہے اس کے بارے میں بھی ان کا کبھی کوئی نظریہ نہیں تھا، اور جس طریقے سے انھوں نے اسے بچایا اس سے بھی بہت تقسیم پیدا ہو گئی تھی۔ جرمنی میں بھی اور یونان کے اندر بھی۔‘
یونان میں سخت بچت کی پالیسی کی وجہ سے انگیلا میرکل کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی تھی
یانیس واروفاکِس نے یونان پر زبردستی مسلط کی گئی سخت کفایت شعاری کے اقدامات کا حوالہ دیا، جو کہ صرف جرمنی نے مسلط نہیں کیے تھے بلکہ زیادہ تر اُن کے کہنے پر ایسا کیا گیا تھا۔
میں اس وقت ایتھنز سے رپورٹنگ کر رہی تھی جب 2015 میں جرمن اور یورپی اتحاد مخالف مظاہرے سڑکوں پر ہو رہے تھے۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر انگیلا میرکل کی ہٹلر کی طرح کی مونچھیں بنی ہوئی تھیں، دیگر مظاہرین نے یورپی اتحاد کے جھنڈے بھی جلائے۔
سب سے پہلے جرمنی
سپین اور اٹلی کو بھی ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جن کو بہت سے ٹیکس دہندگان سخت اور غیر منصفانہ کفایت شعاری پر مجبور کرنے کے اقدامات کے طور پر دیکھتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ یہ بھی انگیلا میرکل کے کہنے پر مجبوراً کیا جا رہا تھا۔
اٹلی جو کہ کبھی ایک پُرجوش یورفائل ریاست ہوا کرتا تھا ایک جوشیلی یوروسیپٹیک رکن ریاست کے طور پر تبدیل ہو گیا۔
ناراض ووٹروں نے مجھے بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ یورو زون کے قوانین طاقتور جرمنی کے مفاد میں بنائے گئے ہیں، تاکہ اس کی منافع بخش برآمدی صنعت کو فائدہ ہو۔ ان کے مطابق ایسے یورپی اتحاد یا مشترکہ مارکیٹ میں ہونے کا کیا فائدہ اگر جرمنی جیسے مضبوط اور امیر ارکین کمزور اور جدوجہد کرنے والے ممالک کی مدد نہیں کرتے۔
وہ جاننا چاہتے تھے کہ جرمن ٹیکس دہندگان کہاں تھے جب آپ کو ان کی ضرورت تھی۔
یہاں اینگلا میرکل پر ایک اور تنقید شروع ہو جاتی ہے کہ بالآخر یورپ میں ان کا نظریہ سب سے پہلے جرمنی تھا۔
شاید آپ کہیں کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ کیونکہ سب سے پہلے تو ہر منتخب رہنما اپنی قوم کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن پھر اُن کے نازی ماضی کی وجہ سے یہ جرمنی کے لیے خاص ہے۔ جرمن اور ان کے چانسلر بین الاقوامی حلقوں میں نمایاں قائدانہ کردار ادا کرنے کے بارے میں اکثر ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
میرکل ایک گیم چینجر
تو کیا وہ یورپ کی ملکہ کے لقب کی مستحق ہیں؟
چانسلر مرکل نے یورو زون کو بچانے کے لیے مداخلت کی، لیکن انھوں نے یورپی یونین کے اندر ایک گہری شمال، جنوب کی تقسیم کو بھی ہوا دی۔ یہ تقسیم جو تارکین وطن کے بحران کے دوران اور کووڈ وبائی مرض کے آغاز میں دوبارہ نمودار ہوئی۔ جس میں جنوبی یورپی باشندے محسوس کر رہے تھے کہ انھیں ان ہنگامی حالات کا سامنا کرنا کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
لیکن وہ بہت دیر تک تنہا نہیں رہے۔ یہ بھی انگیلا میرکل کی وجہ سے ہوا، اگرچہ انھوں نے ایسا بہت دیر بعد کیا۔
اسی لیے میں کہتی ہوں کہ ان کی یورپی یونین کی میراث ملی جلی ہے۔
کووڈ 19 کے بحران نے اس سے پہلے والے یورو بحران کے برعکس، انھیں قائل کیا کہ جرمنی جیسے امیر ممالک کو یورپی یونین کے غریب ممالک کے قرضوں کا بوجھ اٹھانا چاہیے، جیسے یہاں وہ ممالک جو وبائی امراض کے غیر متناسب معاشی اثرات کا شکار ہیں۔
ایسا کرتے ہوئے انھوں نے یورپی اتحاد میں ایک شاندار مثال قائم کی۔ جو ایک جرمن چانسلر کے لیے ایک ریڈیکل پوزیشن تھی، خاص طور پر اس وقت جب اندرون ملک روایتی دباؤ موجود ہو اور توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔
فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے سنہ 2020 میں کووڈ ریکوری فنڈ کی تجویز دی تھی
فرانس کے وزیر اقتصادیات، برونو لی مائر، یورپی یونین کے کووڈ ریکوری فنڈ کے کلیدی معمار تھے، جو انگیلا میرکل اور صدر ایمانویل میکروں نے مشترکہ طور پر یورپی یونین کے رہنماؤں کو تجویز کیا تھا۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اینگلا مرکل کی ہمت کی بدولت یورپی یونین کے لیے ایک گیم چینجر تھا۔ ’انھوں نے ثابت کیا کہ وہ جرمنی میں موجودہ طرز فکر کے خلاف اور یورپی براعظم کے بہتر انضمام اور بہتر کارکردگی کے حق میں فیصلہ کر سکتی ہیں۔‘
لی مائر کا خیال ہے کہ چانسلر مرکل کو پتہ چل گیا تھا کہ اگر انھوں نے دستخط نہیں کیے تو یورپ کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔
ایک اور نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک بار پھر اینگلا مرکل جرمنی کے بہترین مفاد میں ہی کام کر رہی تھیں۔ انھیں ممکنہ طور پر یہ بھی پتہ تھا کہ اگر اٹلی، سپین، فرانس یا دیگر کا وبائی امراض کی وجہ سے معاشی طور پر دم گھٹا تو یورپی اتحاد کی سنگل مارکیٹ منہدم ہو سکتی ہے۔
یہ مارکیٹ جرمن کاروبار کے لیے ایک اہم پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ کرائسس مینیجر انگیلا میرکل نے اپنی آستینیں چڑھائیں اور ڈرامائی، عملی قدم اٹھایا۔ انھوں نے جرمنی میں اور اس سے آگے تاریخ اور شہ سرخیوں میں جگہ بنائی۔
انسانی حقوق کا ملا جلا ریکارڈ
جب 2015 کے موسم گرما کے آخر میں اینگلا مرکل نے جرمنی کی سرحدیں دس لاکھ سے زائد مہاجرین اور پناہ کے متلاشی افراد کے لیے کھول دیں تو ان کا یہ اقدام دنیا بھر میں صفحہ اول کی شہ سرخیوں میں رہا۔ کچھ نے اسے پسند کیا تو کچھ نے اس کا مذاق اڑایا۔
ملک میں کچھ لوگوں نے اپنے ملک میں آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کی ثقافت پر فخر کا اظہار کیا، جس کی علامت اینگلا مرکل بن گئی تھیں۔ اور کئی دوسرے آنے والوں سے ناراض ہو کر دائیں بازو کی اے ایف ڈی کی طرف چلے گئے، جس کی وجہ سے وہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جرمنی کی وفاقی پارلیمنٹ میں نشستیں جیتنے والی پہلی انتہائی دائیں بازو کی جماعت بنی۔
شامی پناہ گزینوں کو ملک میں پناہ دینے کے انجیلا میرکل کے فیصلے کو سراہا بھی گیا اور اس پر تنقید بھی کی گئی
یورپی یونین پر ان کے پناہ گزینوں کے متعلق فیصلے کے اثرات اتنے ہی نمایاں تھے جتنا کہ ان پر ملا جلا ردِعمل آیا۔
یورپی یونین نے سنہ 2012 میں امن کا نوبل انعام جیتا۔ لیکن پھر بھی صرف تین سال کے بعد اس کے رکن ممالک پناہ گزینوں کو باہر رکھنے کے لیے ایک دوسرے پر اپنی سرحدیں بند کر رہے تھے، ان میں سے بہت سے پناہ گزین شام کی جنگ سے فرار ہو کر آئے تھے۔
جرمن رہنما کے اقدامات نے انسانی حقوق کے کلیدی محافظ کے طور پر بلاک کی ساکھ کو بحال کرنے میں مدد کی، جو کہ یورپی یونین کے بانی اصولوں کے آرٹیکل 2 میں بیان کیے گئے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما کے قومی سلامتی کے نائب مشیر اور صدر کا دایاں بازو سمجھے جانے والے بین رہوڈز کے مطابق صدر انجیلا میرکل سے بہت متاثر تھے۔
’یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں بڑے کم سیاسی رہنما تھے جنھیں اگرچہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ انھیں سیاسی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن پھر بھی وہ یہ کرتے تھے کیونکہ انھیں یقین ہوتا تھا کہ یہ صحیح ہے۔‘
’جب مرکل نے ان تمام مہاجرین کو لینے کا فیصلہ کیا تو یہ صاف تھا کہ اس کا سیاسی دھچکا لگے گا اور اوباما اس سے بہت متاثر تھے اور اس سے بھی جس طرح انھوں (میرکل) نے اس کا دفاع کیا تھا۔‘
رہوڈز کے مطابق باراک اوباما نے جرمنی کی چانسلر کو ترغیب دی کہ وہ زیادہ زور سے یورپ کا دفاع کریں، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی اور برطانیہ میں بریگزٹ ووٹ کے بعد۔
اگرچہ چانسلر خود ذرا تذبذب کا شکار تھیں، لیکن انھوں نے بظاہر انھیں چوتھی مدت کے لیے انتخاب لڑنے پر مجبور کیا۔ رہوڈس کے مطابق 2016 کے آخر تک اوباما کو یقین ہو گیا تھا کہ انگیلا میرکل اور برلن کو اب ’لبرل جمہوری ترتیب کے لیے سینٹر آف گریویٹی (کششِ ثقل کا مرکز)‘ بننا ہو گا۔
فیصلہ کن کارروائی سے بچنا
برسلز اینگلا مرکل کی چمک میں تابندہ رہا۔
دوسری طرف آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اینگلا مرکل نے یورپی اتحاد کے رہنماؤں پر 2015 کے تارکین وطن کے بحران سے پہلے بہتر تیاری کے لیے دباؤ کیوں نہیں ڈالا۔ شام اور لیبیا میں ہونے والے واقعات کے بعد یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو منظم قانونی ہجرت کے طریقوں کے لیے استعمال کر سکتی تھیں۔
اس کے بجائے، مایوس مہاجرین اور پناہ کے متلاشی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہوئے لوگوں نے سمندر میں اپنی جان گنوائی اور یورپی اتحاد کے رکن ممالک نے ان لوگوں کو اپنے اپنے ملکوں سے باہر رکھنے کی کوشش میں ایک غیر معمولی تماشا لگایا۔
اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل اور مہاجرین کے گروپوں نے ترکی کے مطلق العنان صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ یورپی یونین کی جانب سے ایک متنازع معاہدے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنے پر چانسلر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس معاہدے نے ترکی کو نہ صرف مہاجرین اور دیگر کو یورپ لے جانے والی سمگلروں کی کشتیوں میں سوار ہونے سے روکنے کا کام سونپا بلکہ اس ساتھ ساتھ یونانی ساحلوں پر اترنے والوں کو بھی ترکی واپس لانے کے لیے کہا۔
یورپی اتحاد نے کوشش کی کہ پناہ گزین یونان میں داخل نہ ہوں اور جو ہو جائیں انھیں واپس لایا جائے
اور ’ہاں، لیکن‘ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جب بات انجیلا مرکل کی ہو رہی ہو، جو انسانی حقوق کے دفاع کے حوالے سے یورپی یونین کی ایک اہم بات ہے۔
جی ہاں، اس موسم گرما میں انھوں نے اور یورپی اتحاد کے 16 دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے دفاع میں ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے تھے، اگرچہ رکن ریاست ہنگری میں ایک نئے قانون پر ایک شدید تنازع کھڑا ہو چکا تھا۔ لیکن برسوں سے کئی لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہنگری کی جمہوری پسپائی میں اینگلا مرکل کا بھی ہاتھ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ہنگری کے خود ساختہ ’ال لبرل‘ وزیر اعظم وکٹر اوربان کچھ عرصہ پہلے تک برسلز میں چانسلر مرکل کے سینٹر رائٹ (مرکز سے دائیں) ای پی پی گروپ کے رکن تھے، جس نے اسے یورپی پارلیمان میں زیادہ نشستوں اور اثر و رسوخ کی ضمانت دی تھی۔ انھیں تنہا کرنا مشکل تھا، اور وہ بار بار فیصلہ کن کارروائی کرنے سے روکتی تھیں۔
ہنگری اور اس کے ای یو اتحادی پولینڈ (دونوں ہی جرمنی کے کاروبار کے اہم شراکت دار ہیں) نے جو سبق سیکھا ہے وہ یہ تھا کہ انگیلا میرکل اور یورپی یونین جزوی طور پر ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہوئے تیز فیصلہ کن کارروائی کرنے سے قاصر تھے۔
اندرون ملک تجارت کا فروغ
سپین کی سابق وزیر خارجہ اور ورلڈ بینک گروپ کی سابق نائب صدر اینا پالاسیو نے حال ہی میں جرمنی پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنے ال لبرل اراکین کو لگام دینے کے لیے یورپ کی بقول ان کے ’نان سٹریٹیجی‘ کو استعمال کر رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر جرمنی انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے تحفظ کے لیے یورپی یونین کے بنیادی اصول کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو یہ ہو گا۔
انھوں نے یورپی اتحاد کی خارجہ پالیسی پر بھی حملہ کیا اور انگیلا میرکل اور کافی حد تک ’مشکوک فیصلوں‘ کا الزام انگیلا میرکل پر بھی لگایا۔ ان میں یورپی یونین کے ترکی کے ساتھ معاہدے سے لے کر چین کے ساتھ سرمایہ کاری کے جامع معاہدے شامل ہیں۔ اس معاہدے پر دسمبر میں جرمنی کی یورپی یونین کی چھ ماہ کی صدارت کے اختتام پر دستخط ہوئے۔
چین 2020 میں جرمنی کا سب سے اہم تجارتی شراکت دار تھا۔
انگیلا میرکل پر اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ جرمنی کے تجارتی مفادات کے لیے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی بناتی ہیں جس کا اثر یورپی اتحاد پر بھی پڑتا ہے۔
روس کے ساتھ تعلقات ہی لے لیں۔ روس اور جرمنی کے درمیان سستی توانائی کو محفوظ بنانے کے لیے نورڈ سٹریم 2 پائپ لائن کی تعمیر سے ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ماسکو کے حوالے سے ای یو کے سیاسی اتحاد اور سٹریٹجک ہم آہنگی کو کمزور کرنے کے علاوہ ولادیمیر پیوتن کو یورپی یونین پر زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔
وسطی اور مشرقی یورپ کے کئی ممالک پائپ لائن کی مخالفت کرتے ہیں۔ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے حال ہی میں نورڈ سٹریم 2 کو ایک خطرناک ’جیو پولیٹیکل‘ ہتھیار کہا ہے۔
اینگلا مرکل کا اصرار ہے کہ اگر ماسکو نے پائپ لائن کو غلط استعمال کیا تو یورپی اتحاد اس پر مزید پابندیاں عائد کر دے گا۔
وہ یوکرین کے حوالے سے روس پر پابندیاں عائد کرنے کی پرجوش وکیل رہی ہیں۔ اور جب اگست 2020 میں ممتاز روسی حزبِ اختلاف کے رہنما الیکسی نوالنی کو زہر دیا گیا تو جرمن لیڈر نے ان کا علاج برلن کے ایک ہسپتال میں کروایا اور غیر معمولی طور پر ان کی عیادت کرنے ہسپتال بھی گئیں۔
مخلوط میراث
اس مضمون کا یقیناً یہ مقصد نہیں ہے کہ یورپی اتحاد کے تمام مسائل کو انگیلا میرکل پر ڈال دیا جائے۔
لیکن جب بات یورپی اتحاد کی میراث کی ہو تو یہ ضروری ہے کہ دوسرے جرمن صحافیوں کی طرح اینگلا مرکل کے مرحوم سیاسی سرپرست، سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل پر بھی ایک نظر ڈالی جائے۔
برسلز میں انھیں جدید دور کے یورپی اتحاد کے بانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے اس وقت کے جرمنی میں اکثریتی رائے عامہ کے خلاف یورو کے تصور کی حمایت کی، اس کی وجوہات معاشی کی بجائے سیاسی تھیں۔ ہیلمٹ کوہل کا خیال تھا کہ ایک مشترکہ کرنسی یورپی پڑوسیوں کے درمیان مزید جنگوں کو روکے گی۔
کوہل نے مغربی جرمنی کے ٹیکس دہندگان کی قیمت پر جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر بھی زور دیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ مشرقی اور وسطی یورپ کو یورپی اتحاد کے بہت قریب لے آئے، اگرچہ ابھی بھی رکنیت ایک دور کی بات تھی۔
ہیلمٹ کوہل کو، جن کی وفات 2017 میں ہوئی، مشرقی اور مغربی جرمنی کو ملانے والے معمار کے طور پر جانا جاتا ہے
اگر موازنہ کریں تو اینگلا مرکل کو یورپی تاج اتنا اچھا نہیں بیٹھتا۔ بحران کے وقت یورپی یونین کی ایک اہم شخصیت؟ ایسی گوند جس نے گینگ کو جوڑ کے رکھا ہوا تھا؟
جی ہاں۔
نئے پُر اعتماد یورپی اتحاد کے مستقبل کی معمار؟ شاید نہیں۔
مرکل کے بعد یورپ
یہ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے کہ فرانس کے ایمینوئل میکروں اس ٹائٹل کی خواہش رکھتے ہیں۔
چار سال پہلے پیرس میں جب انھوں نے اپنے صدارتی انتخابات میں کامیابی کا اعلان کیا تھا تو انھوں نے درخواست کی کہ بیتھوون کی نویں دھن کو جو یورپی اتحاد کا ترانہ بھی ہے، بجایا جائے۔ ’مسٹر یورپ‘ کے نام سے موسوم، میکروں کے پاس یورپی اتحاد میں اصلاحات کا ایک بلند نظر منصوبہ تھا، جس میں سٹریٹیجک خود مختاری یا کم از کم امریکہ پر کم انحصار شامل تھا، لیکن انھیں انگیلا میرکل کی مدد درکار تھی۔
یورپ کی نام نہاد فرانکو جرمن موٹر میں زندگی کی سانس ڈالنے میں مدد اور جرمن ٹیکس دہندگان کے 21 ویں صدی کے یورپی اتحاد کے ویژن کو حقیقت بنانے کے لیے پیسہ لگانے میں مدد۔ جو کہ جرمنی میں سب سے زیادہ مقبول خیال نہیں تھا، اور انگیلا میرکل کو یہ اچھی طرح پتہ تھا۔
امکان ہے کہ سینٹر لیفٹ کے وائس چانسلر اولاف شولز ان کی جگہ چانسلر بن سکتے ہیں
اس مہینے کے انتخابات کے بعد جو بھی جرمنی کا اگلا چانسلر بنے گا، اس کے پاس اینگلا مرکل جیسا برسلز میں جمع ہونے والا برسوں کا تجربہ نہیں ہو گا۔
ایمینوئل میکروں یورپی یونین کی میز کے سرے پر مرکل کے سائز کا سوراخ دیکھ کر اسے پُر کرنے کی امید ظاہر کر رہے ہیں۔
اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو بلاک کچھ بڑی تبدیلیاں دیکھے گا۔ فرانس میں الیسی محل کا شہنشاہ کہلانے والے اب یورپ کا بادشاہ بننا بھی پسند کریں گے۔
لیکن سب سے پہلے تو انھیں اپریل میں فرانسیسی صدارتی الیکشن جیتنا ہو گا، اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔
Comments are closed.