وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل کو گورنر سندھ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے نسرین جلیل کو گورنر سندھ تعینات کرنے کی سمری صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھیج دی گئی ہے۔
نسرین جلیل کا تعارف اور ذکر اگر ان کے خاندانی پس منظر اور حسب نسب کے ضمن میں ہو،تو وہ انتہائی بھر پور بلکہ متاثر کُن ہے، ان کی سیاسی شناخت ابتدا سے آج تک ایم کیوایم ہی ہے۔
نسرین جلیل کے والد ظفر الحسن برطانوی راج کے غیر منقسم ہندوستان میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے اور ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے انہوں نے کئی اہم انتظامی عُہدوں پر ذمّے داریاں انجام دیں۔
نسرین جلیل کی پیدائش لاہور کی ہے تاہم اُن کی زندگی کا کم و بیش تمام حصّہ کراچی ہی میں گزرا ، وہ دو مرتبہ سینیٹ کی رُکن منتخب ہوئیں۔
جاذبِ نگاہ ، دیدہ زیب قیمتی ساڑھیاں، دیدہ زیب چمکتے دمکتے موتیوں کی مالا نسرین جلیل کی پہچان ہیں، پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی اُنہیں ہمیشہ اِسی لباس میں دیکھا گیا۔
نسرین جلیل کی عُمر کا ابتدائی عرصہ بہن، بھائیوں کے ساتھ لندن میں گزرا، تعلیم کی غرض سے پیرس بھی گئیں، اسی لیے انگریزی، اردو زبانوں کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔
فلائنگ کے شوق نے نسرین جلیل کو ہوا بازی سیکھنے پر مائل کیا اور کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کرنے کے بعد ایک طویل عرصے تک وہ یہ شوق بھی پورا کرتی رہیں۔
پاکستان کی پہلی ماہرِ تعمیرات کا اعزاز حاصل کرنے والی یاسمین لاری نسرین جلیل کی بڑی بہن ہیں، نسرین جلیل کا نام صرف کراچی ہی نہیں، پاکستان بھر میں معروف رہا ہے۔
2002ء میں نسرین جلیل نےاین اے 250سے عام انتخابات میں حصّہ لیا، لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکیں تاہم، 2012ء میں سینیٹ کے انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل کی۔
وہ ایم کیو ایم کی ڈپٹی کنوینر اور اکنامک اینڈ فنانس ریونیو اور پرائیوٹائزیشن سمیت سینیٹ کی کئی کمیٹیوں کی چیئر پرسن بھی رہیں۔
جب ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں آپریشن شروع ہوا تو نسرین جلیل کو بھی گرفتار کر لیا گیا، 3 سال کی سزا سنائی گئی اور جیل بھیج دیا گیا، بعد ازاں 6 ماہ کی اسیری کے بعد انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا، مگر اس دوران سینیٹ کے چیئرمین کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر وہ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے لگیں۔
نسرین جلیل پہلی مرتبہ 1994ء اور دوسری مرتبہ 2012ء میں سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی چیئر پرسن بنیں اور اسی حیثیت میں بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے پارلیمانی پلیٹ فارم سے بہت کام کیا۔
Comments are closed.