قزاقستان کشیدگی: ’اگر تم نے دوبارہ احتجاج کیا، تو ہم تمھیں مار ڈالیں گے‘
- عبدالجلیل عبدالرسولوف
- بی بی سی نیوز، الماتی
فوجی لباس میں ملبوس، مسلح آدمیوں نے تمام وارڈ چیک کیے، وہ چیخ رہے تھے کہ وہ شورش (جس میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے) کے دوران زخمی ہونے والے افراد کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
ایصل جو کشیدگی کے دوران گولی لگنے کے بعد قزاقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی کے ایک ہسپتال میں زیرِعلاج تھیں، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں: ان میں ایک چیخا ’اگر تم لوگ احتجاج کرنے کے لیے دوبارہ باہر نکلے تو ہم تمھیں مار ڈالیں گے۔‘
ایصل کا خیال ہے کہ بندوق بردار ان مردوں کا تعلق پولیس کی سپیشل فورس سے تھا یا وہ سکیورٹی سروسز کے آدمی تھے اور حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے ہر شخص کو پکڑ رہے تھے۔
انھوں نے ایصل کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن زخموں کے باعث وہ چلنے سے قاصر تھیں۔ ان کی حفاظت کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے۔
بہت سے دوسرے افراد کی طرح انھوں نے بھی ان پرامن مظاہروں میں حصہ لیا جو جنوری کے اوائل میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
قزاقستان میں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر موجود ہیں مگراس کے فوائد عوام کی اکثریت تک نہیں پہنچ پاتے۔
جلد ہی یہ مظاہرے ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار میں بدل گئے جس کے نتیجے میں وہ خونریزی ہوئی جو اس سابق سوویت ریاست کی آزادی حاصل کرنے کے 30 سالوں کی بدترین تھی۔
حکام پر الزام ہے کہ امن بحال کرنے کے لیے انھوں نے اپنی طاقت کے استعمال میں تجاوز کیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران 225 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ حکام کے مطابق ان ہنگاموں کے بعد تقریباً 1000 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایصل جن کی عمر 57 برس ہے، پریشان ہیں کہ بہت سے دوسرے افراد کی طرح انھیں بھی ہنگامہ آرائی میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGalym Nurpeisov
مراتبیک ییسنگازی کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ دورانِ حراست انھیں مارا پیٹا گیا ہے اور تصاویر میں ان کی ٹانگ پر کئی زخم دیکھے جا سکتے ہیں
قزاقستان کے پراسیکیوٹر جنرل نے تقریباً 700 افراد پر فوجداری مقدمات دائر کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد پر دہشت گردی، قتل اور حکومت کا تختہ الٹنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
تاہم انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ حکام پُرامن مظاہرین سمیت، احتجاج میں حصہ لینے والے ہر شخص کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔
حتیٰ کہ فیس بک پر احتجاج کی حمایت میں پوسٹ کرنے والوں کو بھی حراست میں لیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ انھیں مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
الماتی میں انسانی حقوق کے ایک کارکن، باخیتزان توریگوزینا کا کہنا ہے ’بے گناہی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ حکام کے نزدیک سب دہشت گرد ہیں اور وہ زبردستی ان سے اس بات کا اعتراف کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
الماتی کے مرکزی سکوائر میں ہونے والے مظاہرے میں حصہ لینے والے ایک کارکن، مراتبیک ییسنگازی پر ہنگامہ آرائی میں حصہ لینے کا الزام ہے۔ ان کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ دورانِ حراست انھیں مارا پیٹا گیا ہے اور تصاویر میں ان کی ٹانگ پر کئی زخم دیکھے جا سکتے ہیں۔
حکام اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ دورانِ حراست کسی بھی قیدی کو مارا پیٹا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
الماتی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سلطنت عزیر بیک نے بی بی سی کو بتایا کہ جن لوگوں نے ہنگامہ آرائی میں حصہ نہیں لیا انھیں ’پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ حقائق منظرِعام پر آنے کے بعد ان افراد کو رہا کر دیا جائے گا۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پرامن احتجاج، پُرتشدد ہنگامہ آرائی میں کیسے بدل گیا۔ 4 جنوری کو جب لوگ جمع ہوئے تو ایک تہوار کا گمان ہو رہا تھا، انھوں نے قزاقستان کا قومی ترانہ پڑھا اور سیاسی مطالبات دہرائے۔
ایک مقامی صحافی، تیمور نسیم بیکوف جن کے سامنے الماتی میں یہ تمام واقعات رونما ہوئے، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’ہجوم میں مضافاتی علاقوں سے لے کر شہر کے مرکز میں رہنے والے، ہپسٹر، نوجوان، نوکری پیشہ ہر قسم کے لوگ شامل تھے۔‘
ماحول اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوا جب انتظامیہ نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے سٹن گرینیڈ اور آنسو گیس پھینکی، جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
اس سے اگلے دن یعنی 5 جنوری کو تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ تیمور نسیم بیکوف کے مطابق الماتی کے سکوائر پر موجود کچھ لوگ چاقو اور شکار کرنے والی بندوقیں اٹھائے ہوئے تھے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ افراد کون تھے۔
الماتی پولیس کی عزیر بیک کہتی ہیں کہ ’لڑائی کی تربیت رکھنے والے افراد‘ نے ہتھیاروں پر قبضے کی نیت سے پولیس پر حملہ کیا۔
یہ بھی پڑھیے
وہاں موجود مظاہرین، نامعلوم افراد کو شرپسندی کا ذمہ دار ٹہھراتے ہیں۔ ایک کارکن کونے عبدیوو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا احتجاج پرامن تھا۔‘
’لیکن پھر نوجوانوں کا ایک گروپ آیا اور وہ سیدھے سٹی ہال کی جانب بھاگے۔ ہم انھیں روک نہیں پائے، انھوں نے کاروں کو تباہ کیا اور کھڑکیاں توڑ دیں۔‘
’انھوں نے ایسے ماسک پہن رکھے تھے جس نے ان کے چہروں کو چھپا دیا تھا۔ ہمیں ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئِے بھی خوف آ رہا تھا کہ کہیں وہ ہم پر حملہ نہ کر دیں۔‘
’انھوں نے پرامن مظاہرین پر گولی چلائی‘
جلد ہی حالات قابو سے باہر ہو گئے۔ ہجوم میں موجود کچھ لوگوں نے سٹی ہال پر قبضہ کر لیا اور اسے آگ لگا دی۔ سکوائر میں ہر طرف گولیوں اور سٹن گرینیڈ کی آوازیں تھیں۔
ان گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں ایصل بھی شامل تھیں۔
’مجھے اپنی ٹانگ سے خون بہتا محسوس ہوا اور میں بیہوش ہو گئی۔ جب مجھے ہوش آیا تو دو آدمی اپنی ڈھالوں سے میری حفاظت کرتے ہوئے، گھسیٹ کے لیجا رہے تھے۔ آس پاس چلتی گولیوں کے ببچ وہ چیخ رہے تھے کہ نیچے لیٹی رہو۔‘
انھیں ایک ٹرک میں ڈال کر ہسپتال تک لیجایا گیا۔ ’مجھے یاد ہے کہ اس ٹرک کے اندر اور بہت سے لوگ موجود تھے۔ میں درد سے کراہ رہی تھی۔ کئی لوگ میری زخمی ٹانگ کے اوپر تھے۔ ان میں سے کچھ کی سانس نہیں چل رہی تھی۔‘
سکوائر میں رہ جانے والے افراد نے 6 جنوری کو پُرامن ریلی نکالنے کی کوشش کی، ان میں بہت سے بزرگ مرد اور خواتین بھی شامل تھے جن کی خواہش تھی کہ فائرنگ کا خاتمہ ہو جائے۔
انھوں نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا: ’ہم دہشت گرد نہیں، پرامن لوگ ہیں۔‘
لیکن اسی شام بکتر بند گاڑیوں میں فوجی وہاں پہنچے اور سکوائر کو دونوں طرف سے بند کر دیا۔
مظاہرے میں شامل سلطلنت خمزینہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں ’ہم آزادی کی یادگار کے قریب تھے۔ لوگوں نے قزاقستان کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ سب قطار میں کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ ہوا میں لہرا کر دکھایا کہ وہ غیر مسلح ہیں۔‘
شام 7 بجے کے قریب فوج نے فائرنگ شروع کر دی۔
سلطلنت بتاتی ہیں ’ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں لیکن ہمارے پیچھے موجود لوگ گولیاں لگنے کے بعد گر رہے تھے۔ اگلی صف میں موجود افراد پر گولی نہیں چلائی گئی۔ شاید وہاں سنائپر تعینات تھے جو گولیاں چلنے کی آوازوں کے بیچ لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔‘
مظاہرے میں شامل ایک اور شخص میرخان عبدوماناپاؤ نے آزادی کی یادگار کے قریب پناہ لی جہاں انھوں نے ایک 50 سالہ شخص کو زخمی حالت میں دیکھا۔
’وہ درد سے کراہ رہا تھا اور ہل نہیں سکتا تھا۔ تقریباً 17 یا 18 سال کی دو نوجوان لڑکیاں اور ایک اور نوجوان، ایک دوسرے کے اوپر پڑے تھے۔ ان میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں تھی۔‘
’میں اتنا غصے میں تھا کہ میں نے خود سے وعدہ کیا کہ سب کو بتاؤں گا کہ انھوں نے پرامن مظاہرین پر گولیاں چلائی ہیں۔‘
الماتی پولیس کی عزیر بیک کا اصرار ہے کہ سیکورٹی فورسز نے صرف اپنے دفاع میں مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
دوسری جانب قزاقستان کی حکومت نے شورش کا الزام بین الاقوامی روابط رکھنے والے ’دہشت گردوں ‘ پر عائد کیا ہے تاہم اس انھوں نے اس الزام کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔
ملک میں اقتدار پر قبضے کے لیے اندورنی خلش کی بھی اطلاعات ہیں جن میں سابق صدر نورسلطان نذربایوف کا نام لیا جا رہا ہے۔
مقامی صحافی تیمور نسیم بیکوف خبردار کرتے ہیں کہ خونریزی کا سبب چاہے کچھ بھی ہو ’پرامن مظاہرین، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں کو لٹیرے اور ڈاکو نہیں سمجھنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حکام ’اپنی ان سنگین غلطیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں جو قزاقستان کی تاریخ میں بدترین انسانی تباہی کا باعث بنیں۔‘
قزاقستان کے متعلق چند اہم باتیں:
یہ کہاں واقع ہے؟ قزاقستان کی سرحدیں شمال میں روس اور مشرق میں چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ مغربی یورپ کے سائز جتنا ایک بڑا ملک ہے۔
اس ملک کی اہمیت کیا ہے؟ یہ ایک سابق سوویت جمہوریہ ہے جہاں اکثریت آبادی مسلمان اور اقلیت روسی ہے، اس ملک کے پاس وسیع معدنی ذخائر موجود ہیں، جن میں دنیا میں تیل کے عالمی ذخائر کا تین فیصد کے علاوہ کوئلہ اور گیس شامل ہیں۔
یہ خبروں میں کیوں ہے؟ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد، حکومت کے خلاف ہونے والے پُرامن احتجاج، پُرتشدد مظاہروں میں بدل چکے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کی اعلیٰ قیادت مستعفیٰ ہوئی ہے اور مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا ہے۔
Comments are closed.