لندن: آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھا ہے تو اب کہا جارہا ہے کہ یہ ہولناک تبدیلیاں ان علاقوں کو شدید متاثر کرسکتی ہیں جنہیں آج غذائی ٹوکری کے زرخیز خطے کہا جاتا ہے۔
بلاشبہ یہ ایک تشویشناک امر ہے جس کی جانب آلٹو یونیورسٹی نے توجہ کی ہے۔ پہلے یہ کہا گیا ہے کہ اگر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیرمعمولی اخراج کا یہ سلسلہ جاری رہا تو خوراک کی عالمی پیداوار میں کم سے کم 33 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ تحقیق جرنل ون ارتھ میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق اس صدی کے اختتام تک دنیا بھر کی 95 فیصد غذا کاشت کرنے والے علاقے اس درجے تک متاثر ہوں گے کہ ان میں بعض کی پیداوار تیزی سے گرجائے گی یا پھر وہ مکمل طور پر بنجر ہوجائیں گے۔ لیکن ساتھ ہی اچھی خبر یہ ہے کہ اگر ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مضر ترین گرین ہاؤس گیس کے اخراج پر قابو پاسکیں تو اس ممکنہ بھیانک صورتحال کو بھی ٹالا جاسکتا ہے۔ یعنی ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ اس صدی کے آخری سال تک عالمی اوسط درجہ حرارت کسی بھی طرح ڈیڑھ سے دو درجے سینٹی گریڈ سے اوپر بڑھنے نہ پائے۔
غذائی پیداوار والے یہ علاقے بارانی ہیں جن میں جنوبی اور جنوبی مشرقی ایشیا، افریقہ میں ساحل نامی خطہ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ اس تحقیق میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کرہ ارض پر زراعت اور غلہ بانی کے 27 اہم ملک یا علاقے ایسے ہیں جو بہت متاثر ہوسکتےہیں۔ تاہم 177 ممالک میں سے 52 ممالک کی زرعی پیداوار متاثر نہیں ہوگی۔
Comments are closed.