پیرس: اقوامِ متحدہ کے تحت ہزاروں سائنسدانوں پر مشتمل بین الحکومتی پینل برائے آب و ہوا میں تبدیلی (آئی پی سی سی) نے اپنی چھٹی رپورٹ جاری کردی ہے جو پہلے کی رپورٹ سے قدرے زیادہ تشویشناک بن چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اگلے 20 برس میں ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔ یہ وہ حد ہے جسے ماہرین ایک خطرہ قرار دیتے رہے ہیں کیونکہ اس سے موسم کا مزاج مزید بگڑے گا، قدرتی موسمیاتی آفات میں اضافہ ہوگا، خشک سالی بڑھے گی اور جنگلات کی آگ مزید بھڑکے گی۔
رپورٹ میں انسانی سرگرمیوں کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔ تاہم اس وقت بھی کیلیفورنیا پر جنگلات کی آگ پانچ لاکھ ایکڑ سبزہ جلاکر بھسم کرچکی ہے۔ جبکہ وینس شہر میں ٹخنوں تک پانی بھر آیا ہے۔ گزشتہ برس ہم ایمیزون اور آسٹریلیا کی آگ میں نصف ارب جانوروں کو جلتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطرے کی گھنٹیاں اپنی اتنی تیز ہوچکی ہیں کہ وہ ہماری سماعت سلب کرسکتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل رکازی ایندھن اور کوئلہ ہمارے سیارے کو برباد کردے کیوں نہ ان ایندھنوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے۔
اس رپورٹ میں ایک دو نہیں بلکہ 14000 سائنسی رپورٹ، جائزوں اور تجزیوں کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے جو فطرت، ہمارے گھر اور خود موسمیاتی تبدیلیوں کو ظاہر کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تمام حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ ہر طرح سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکیں ورنہ اگلے20 سال میں ہم اوسط درجہ حرارت میں ڈیڑھ فیصد تک اضافہ دیکھیں گے۔
اس رپورٹ پر برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے تبصرہ کرتے ہوئے اسے پوری دنیا کے لیے ایک ضروری پکار قرار دیتے ہوئے فوری عملدرآمد پر زور دیا ہے۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان ہی اس ہولناک ماحولیاتی، موسمیاتی اور فطری تباہی کا ذمے دار ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے عالمی تپش کی وجہ بننے والی گیسوں کے اندھا دھند اخراج سے کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے بعد سے 1.1 سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے اور اگر ہم زمین دشمن تمام رویے ترک بھی کردیں تب بھی اس کے دیرپا منفی اثرات قائم رہیں گے۔
اس کے فوری اثرات دنیا بھر میں دیکھے گئے ہیں۔ ایک جانب تو گرمی کی لہروں سے سینکڑوں افراد کینیڈا میں لقمہ اجل بنے، بارشوں نے جرمنی میں تباہی مچائی، جنگلوں کی آگ خطرناک ہوگئی امریکہ میں کئی مقامات پر خوفناک خشک سالی دیکھی گئی ہے۔ ایک طرح تو سائیبیریا کے جنگل جلے تو دوسری جانب یونان میں لوگ کشتیوں کی مدد سے اپنے گھروں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے کیونکہ وہاں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے۔
ناقابلِ تلافی نقصانات
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آب و ہوا میں بعض تبدیلیاں اب دوبارہ درست نہیں ہوسکتی ہیں۔ ان ناقابلِ تلافی نقصانات میں آئس لینڈ اور قطبین کی پگھلتی ہوئی برف ہیں اور یہ عمل جاری رہے گا۔
رپورٹ کے ایک اور مصنف کہتے ہیں کہ کرہِ ارض کی بعض تبدیلیاں اتنی گہری ہیں کہ انہیں ٹھیک ہونے میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس لگ سکتے ہیں۔ اس طرح ہمارا وقت گزرتا جارہا ہے۔
Comments are closed.