اُڑنے والی الیکٹرک ٹیکسی کے سفر کا خواب اب حقیقت سے کتنا دور ہے؟

للیئم

،تصویر کا ذریعہLILIUM

  • مصنف, بین مورس
  • عہدہ, بزنس ٹیکنالوجی رپورٹر

رواں سال پیرس میں اولمپکس کا انعقاد ہو گا جس میں حصہ لینے والے تمام کھلاڑی یقیناً ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہیں گے۔ لیکن ایک نئی کمپنی ’وولوکوپٹر‘ بھی اسی دوران ایک نئی تاریخ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اگر اس کمپنی کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اس کا دو سیٹوں والا الیکٹرک جہاز وولو سٹی پیرس کی فضا میں مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم کرے گا۔ یورپ میں اس طرز کے ہوائی جہاز کی یہ پہلی سروس ہو گی جو ’الیکٹرک ٹیک آف اور لینڈنگ ایئر کرافٹ‘ کہلاتا ہے۔

دنیا بھر میں کئی کمپنیاں ایسے جہاز تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو سستے شہری ہوائی سفر کی ضمانت دی سکیں اور جن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی بڑے شہر میں کسی بھی جگہ اُتر سکیں۔

وولوکاپٹر کمپنی کو توقع ہے کہ یورپی ایئرو سپیس ریگولیٹر ان کی مشین کو اگلے چند ماہ میں اجازت دے دے گی جس کے بعد وہ اولمپکس میں پہلی کمرشل پرواز کے لیے تیار ہوں گے۔

جرمن کمپنی کے چیف فنانشل افسر کرسچیئن بائر کا کہنا ہے کہ ’اگلے سال کے وسط تک سب کچھ تیار ہو گا۔‘

وولوکاپٹر کو پیرس کے وسط کو شہر کے ایئر پورٹ اور ہیلی پورٹ سے جوڑنے کے لیے تین روٹ ملیں گے جبکہ تفریحی مقاصد کے لیے بھی اسے استعمال کیا جا سکے گا۔

وولوکاپٹر

،تصویر کا ذریعہVOLOCOPTER

اس جہاز کا روٹ اور لینڈنگ کا مقام طے کرنے پر کافی محنت کی گئی ہے کیوںکہ پیرس جیسے شہر میں یہ آسان نہیں ہو گا۔ اگر دیکھا جائے تو ایک نیا جہاز تیار کرنے، اس کی سرٹیفیکیشن لینے تک وولوکاپٹر نے 12 سال میں بہت کچھ پا لیا ہے۔

تاہم چند لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی وولوکاپٹر کا سب سے بڑا چیلنج سامنے نہیں آیا کیوںکہ اس جیسی کمپنیوں کو دکھانا ہو گا کہ ان کے جہاز کے لیے مارکیٹ موجود ہے۔

ایک اور مسئلہ بیٹریوں کا بھی ہے کیوںکہ یہ بھاری بھرکم ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگی بھی ہیں جس کی وجہ سے اس جہاز کی رینج اور مالی افادیت ہیلی کاپٹر، ٹرین اور گاڑیوں کے مقابلے میں کم ہو جاتی ہے۔

وولو سٹی کی رینج 22 میل ہے جو چھوٹے شہری سفر کے لیے تو کافی ہے لیکن ہیلی کاپٹر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔

کرسچیئن بائر کو بھی ان مسائل کا ادراک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بیٹری کی ٹیکنالوجی ایک مسئلہ ہے اور اس وقت سب لوگ اسی پر کام کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ زیادہ طاقتور اور سستی بیٹریاں سامنے آئیں گی جس کے بعد وولوکاپٹر بڑا جہاز بنا سکے گا جو کم قیمت پر بہتر خدمات فراہم کرنے میں مددگار ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری ابتدائی قیمت کسی ہیلی کاپٹر جتنی ہو گی لیکن پھر ہم آہستہ آہستہ اس میں کمی لائیں گے اور پھر ہمارے پاس چار سے پانچ سیٹوں والا ماڈل بھی آئے گا۔‘

وولوکاپٹر

،تصویر کا ذریعہVOLOCOPTER

جرمنی کی ہی کمپنی للیئم نے بھی ایک ایسا ہی جہاز بنایا ہے جو چھ مسافروں کو لے جا سکتا ہے۔

وولوکاپٹر کی طرح روٹر استعمال کرنے کے بجائے للیئم نے 30 الیکٹرک جیٹ استعمال کیے ہیں جن کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے جہاز کو سیدھا ہوا میں اڑایا جا سکتا ہے۔ للیئم کو امید ہے کہ 2025 تک ان کو یورپی ایجنسی سے اجازت مل جائے گی۔

للیئم کا کہنا ہے کہ ایسے جہازوں کی مانگ پیدا ہو گی جو بڑے شہروں میں ٹریفک سے بچاؤ کا راستہ فراہم کر سکیں گے یا پھر ایسے مقامات پر جہاں ریل سروس موجود نہیں۔

للیئم کے چیف ایگزیکٹیو کلاس روئیو کا کہنا ہے کہ ’جہاں کم قیمت پر ٹرین موجود ہے، ہم اس سے مقابلہ نہیں کرنا چاہیں گے۔ ہم اس مقام پر ہی رہیں گے جہاں انفراسٹرکچر موجود نہیں اور بنانا بھی مشکل ہے۔‘

انھوں نے جون میں ہونے والے ایک معاہدے کی جانب اشارہ کیا جس کے تحت شینزین ایسٹرن جنرل ایوی ایشن 100 للیئم جہاز خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

للیئم

،تصویر کا ذریعہLILIUM

یہ بھی پڑھیے

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ہیلی ایسٹرن کمپنی چین کے گریٹر بے خطے میں فضائی سروس فراہم کرتی ہے جس میں ہانگ کانگ، شینزن اور ماکاو شامل ہیں۔

کلاس روئیو کا کہنا ہے کہ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جس میں کئی جزائر ہیں اور اسی لیے یہاں سفر کرنا آسان نہیں۔

لیکن وولوکاپٹر کی ہی طرح للیئم بھی بہتر بیٹری ٹیکنالوجی کا انتظار کر رہی ہے تاکہ اس کے جہاز بھی بہتر ہو سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت بیٹری کی قیمت پر غیر یقینی موجود ہے‘ لیکن ان کے خیال میں وقت کے ساتھ بیٹری کی قیمت میں کمی جبکہ اس کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہماری بیٹری کسی دوسری بیٹری سے زیادہ مہنگی ہو کیوںکہ پروڈکشن کا عمل ایک جیسا ہی ہے۔‘

لیکن ان کے خیالات کے برعکس ماہرین کا فلائنگ ٹیکسی یا جہاز کی بیٹری کے بارے میں اتنے پرامید نہیں۔

جورن فیرم سویڈن کی ایئر فورس کے سابق پائلٹ ہیں جو اب لیہم کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مخصوص قسم کے جہاز کو ایک خصوصی بیٹری کی ضرورت ہے جو کافی مہنگی قیمت پر تیار ہوتی ہے اور یہ زیادہ تعداد میں نہیں بن سکتی۔

ان کا کہنا ہے کہ الیکٹرک ٹیک آف اور لینڈنگ ایئر کرافٹ کسی کار کے مقابلے میں بیٹری سے بہت تیزی سے طاقت کھینچتا ہے۔

ان کے مطابق دوسری جانب سستے سفر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جہاز کی بیٹری جلدی سے دوبارہ چارج ہو جائے لیکن یہ عمل بھی بیٹری پر اضافی بوجھ ڈالتا ہے اور اسی لیے ان جہازوں کی بیٹری گاڑی سے مہنگی ہوتی ہے۔

وولوکاپٹر

،تصویر کا ذریعہVOLOCOPTER

جورن فیرم کو مستقبل میں اس معاملے میں بہتری تو نظر آتی ہے لیکن ان کے نزدیک ایسا صرف موجودہ دہائی کے اختتام تک ہی ہو پائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ بیٹری کی موجودہ صلاحیت کی وجہ سے ہی ان جہازوں کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہیلی کاپٹر کسی آنے والے طوفان کے گرد سفر کر سکتا ہے لیکن الیکٹرک ٹیک آف اور لینڈنگ ایئر کرافٹ ایسا نہیں کر سکے گا۔

بیٹری کی صلاحیت میں بہتری کے علاوہ ان جہازوں کو تیار کرنے والی کمپنیوں کو ایسی فیکٹریاں بھی درکار ہوں گی جہاں زیادہ تعداد میں یہ جہاز بن سکیں۔

یہ عمل بھی مہنگا ہو گا کیوں کہ ان جہازوں کی تیاری کا عمل بھی مسافر ہوائی جہازوں جیسا ہوتا ہے۔

ایوی ایشن ماہر ڈیرل سوانسن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بیٹری کی ٹیکنالوجی ایک مسئلہ ہے تاہم ان کے مطابق اس معاملے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ اپریل میں وولوکاپٹر نے جنوبی جرمنی میں سٹٹ گارٹ کے قریب برشل میں پہلی اسمبلی لائن کھولی تھی جس میں سالانہ 50 جہاز تیار کیے جا سکیں گے۔ کمپنی کو امید ہے کہ اس دہائی کے اختتام تک وہ سالانہ پانچ سے سات ہزار جہاز بنا رہے ہوں گے۔

بائر کہتے ہیں کہ ابھی کافی کام باقی ہے اور مذید سرمایہ کاری بھی درکار ہے۔

’میں کہوں گا کہ ہم نے اس پہلی میراتھون کا آخری قدم اپنے جہاز کی سرٹیفیکیشن کے ساتھ مکمل کیا اور اب اگلی میراتھان شروع ہے جس میں منافع بخش ہونے پر کام ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ