اولی: کشتی رانی کے مقابلے میں پہلی بار کسی بِلّے کی تاریخی شرکت

اولی اور ان کے مالک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ٹیفینی ٹرن بل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، سڈنی

سڈنی کے ساحل پر اس بار کشتی رانی (یاٹ ریس) کے مقابلے میں ’اولی‘ ایک تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ وہ منگل کو سڈنی سے ہوبارٹ یاٹ ریس میں حصہ لینے والوں کی قطار میں سب سے آگے کھڑے ہوں گے۔ اب آپ سوچیں گے کہ قطار میں اگے کھڑے ہونے سے کون سی تاریخ رقم ہو گی؟ توآپ کو بتا دیں کہ اولی ایک بِلّا ہے۔

یہ ایونٹ 1945 میں آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر ایک کروز کے طور پر شروع ہوا تھا۔ میڈیا جائنٹ روپرٹ مرڈوک سے لے کر آسٹریلوی کرکٹ لیجنڈ مائیکل کلارک اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم سر ایڈورڈ ہیتھ تک ہر شعبہ زندگی کے نامور افراد کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔

لیکن اس پُرمشقت سمندری ریس میں کسی بھی بلی کے سفر کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔ گو کہ کبوتروں کے ذریعے ایک بار ساحل پر واپس پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کرنے کا ذکر تو ہے لیکن بلیّاں ؟ ان کا ذکر کہیں موجود نہیں۔

اولی کے مالک باب ولیمز کہتے ہیں کہ ’ہم دونوں کوئی مثال قائم کرنے کی غرض سے نہیں نکلے تھے۔ یہ ایک عام سی بِلّا ہے اور یہ سلف سکس (Sylph VI ) نامی کشتی کا ایسے ہی لازمی حصہ ہے جیسے اس میں موجود فرنیچر اور اسے پیچھے چھوڑ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘

باب ولیمز نے اس ریس سے پہلے بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ’میں نے بہت سے ایڈونچرز کیے ہیں جنھیں پاگل پن سمجھا جاتا ہے تاہم یہ ان میں سے ایک نہیں ہے۔‘

اس ریس کے منتظمین بھی شروع میں اس فیصلے سے کافی حیران ہوئے۔

آسٹریلیا کے کروزنگ یاٹ کلب نے وضاحت کی کہ ریس میں حصہ لینے کے لیے جانوروں پر پابندی لگانے کے حوالے سے کوئی اصول نہیں ہیں، اور سمندری سفر میں بلیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔

کموڈور آرتھر لین نے کہا، ’رولیکس سڈنی ہوبارٹ کے بارے میں ایک منفرد بات ریس کے تمام کردار شاندار ہونے کے ساتھ اور کشتیوں کا تنوع ہے۔‘

 سڈنی کی کشتی ریس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہر سال کشتیوں کی یہ ریس پوری دنیا میں شائقین کی توجہ کا مرکز بنتی ہے

باکسنگ ڈے ریس میں زیادہ تر چھوٹی کشتیاں مختصر ترین عملے کے ساتھ مقابلے میں شریک ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں 1960 میں بنائی گئی 12 میٹر (40 فٹ) لمبی دیوہیکل کشتی ’سلف سکس‘ لوگوں کی دلچسپی کا محور ہے۔

اولی کے حوالے سے جہاز کے نائب کپتان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک اولی کا تعلق ہے وہ جہاز کا بِلّا ہے۔‘

جبکہ سلف ایک پرانی کشتی ہے جس نے کئی دہائیوں پہلے سڈنی سے ہوبارٹس چند مقابلوں میں حصہ لیا تھا جبکہ یہ باب ولیم کا پہلا موقع ہے کہ وہ اسے دوڑانے جا رہے ہیں۔

لیکن انھیں اور اولی دونوں کو سمندر کا کافی تجربہ ہے۔

باب ولیم بحریہ کے ایک ریٹائرڈ افسر رہ چکے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی سمندر کو عبور کرتے ہوئے گزاری ہے۔ جس میں حال ہی میں دنیا کا تن تنہا دنیا کا چکر لگانا بھی شامل ہے جس میں اولی ان کے ہمراہ رہی ہے۔ ان کے سفر میں ذیادہ تر اولی ہی ہمراہ ہوتا ہے۔

اولی کی عمر اس وقت تقریباً 10 سال ہے۔ وہ پانچ سال پہلے باب کے پاس آیا اور جلد ہی اس کی سمندر سے دوستی ہو گئی۔

باب ولیمز نے کہا کہ ’شروع میں اولی سمندری سفر سے بیمار ہو جاتا تھا لیکن اب وہ ٹھیک ہے۔ وہ زندگی سے کافی لطف لیتا ہے۔‘

اولی سفر کےدوران عموماً آرام دہ حالت میں نیم دراز پایا جاتا ہے اور اس کا پسندیدہ مقام کشتی کا کاک پٹ ہے۔

’اولی بہت سمجھدار ہے۔ جب بھی سمندر بپھرتا ہے تو وہ نیچے کی طرف غائب ہو جاتا ہے تاکہ اپنے لیے ایک اچھی، محفوظ جگہ تلاش کر سکے۔‘

لیکن سمندر کے اس حصے میں یہ کشتی رانی کا مقابلہ خطرات سے خالی نہیں۔

1998 کی اس ریس میں مقابلہ کرنے والے افراد ایک سمندری طوفان کی زد میں آ گئے تھے جس میں پانچ کشتیاں ڈوب گئیں اور چھ ملاحوں کی جان چلی گئی تھی۔

اس سال پیش گوئی کرنے والوں نے خبردار کیا ہے کہ سمندر میں ان دنوں گرج چمک، تیز ہواؤں کے ساتھ طوفانی جھکڑوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ کورس کے کچھ حصوں میں اولے بھی پڑ نے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

باب ولیمز نے اس حوالے مزاحاً کہا کہ انھوں نے ابھی تک سمندر میں بِلّا نہیں کھویا ہے۔

تاہم ساتھ ہی سنجیدہ ہوتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لیے تیار ہیں۔

’ایسے وقت میں بِلّے کے دوبارہ عرشے پر واپس آنے کے لیے اپنے ہاتھ میں کوئی تولیہ یا موٹی رسی ہاتھ میں ہونا ضروری ہے تاکہ وہ(بلی) واپس جہاز پر چڑھ سکے۔‘

’اولی کے لیے کوئی لائف جیکٹ نہیں اور وہ اسے پہننا پسند نہیں کرتا۔‘

’اگرچہ بلیوں کو پانی سے نفرت ہے لیکن مجھے پتہ ہے کہ اولی تیراکی کر سکتا ہے، کیونکہ اس نے ایک بار کتے کے حملے سے بچنے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی تھی۔‘

سلف اور اس کے مکینوں کے لیے امید کی جا رہی ہے کہ وہ اس کھیل ر میں محفوظ طریقے سے شامل ہوتے ہوئے ہوبارٹ کی طرف نسبتاً آرام دہ رفتار سے آگے بڑھیں گے۔

اس کھیل میں منزل پر پہنچنے کا تیز ترین ریکارڈ 2017 میں قائم کیا گیا جس کا دورانیہ ایک دن اور نو گھنٹے کا ہے لیکن تیز رفتاری کا یہ ریکارڈ ایک بہت بڑے اور جدید سپر یاٹ نے بنایا تھا۔ ’سلف ایک پرانی اور سست رفتار کشتی ہے تاہم ہماری خواہش نئے سال کے جشن کے لیے وقت پر ہوبارٹ پہنچنا ہے۔‘

’وہاں پہنچ کروہ اپنے یادگار سفر کا جشن منائیں گے جس میں وہ خود تو شاید مئے نوشی کریں لیکن اولی کے لیے دودھ کا گلاس ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ