انگلینڈ میں شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال کر دی گئی: قانون کو نافذ ہوتے دیکھنا ’شاید میری زندگی کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے‘
انگلینڈ میں شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال کر دی گئی: قانون کو نافذ ہوتے دیکھنا ’شاید میری زندگی کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے‘
- مصنف, راجدیپ سندھو اور بیکی مورٹن
- عہدہ, بی بی سی پولیٹِکس
-
انگلینڈ اور ویلز میں شادی کی قانونی عمر بڑھا کر 18 سال کرنے سے متعلق نئے قانون کا نفاذ شروع ہو گیا ہے۔
پہلے لوگ والدین کی رضامندی سے 16 یا 17 سال کی عمر میں شادی کر سکتے تھے اور ایسے بچوں کی شادیوں کی، جو مقامی کونسلوں میں رجسٹرڈ نہیں ہوتی تھیں، شادیوں کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔
نیا قانون ان شادیوں کا احاطہ بھی کرتا ہے جن پر قانونی پابندی نہیں ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں سے بچوں کی زبردستی شادی کو رو کنے میں مدد ملے گی۔
اس سے پہلے جبری شادی صرف اس صورت میں جرم تھی جب یہ دھمکیاں دے کر کی گئی ہو۔
لیکن میرج اینڈ سول پارٹنرشپ (کم سے کم عمر) ایکٹ کے تحت اب کسی بھی حالت میں بچوں کی شادی کرنا غیر قانونی ہے، چاہے جبر کا استعمال کیا جائے یا نہ کیا جائے۔
اس جرم میں ملوث پائے جانے والوں کو سات سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
ان تبدیلیوں کا اطلاق سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں نہیں ہوگا، جہاں شادی کی کم سے کم عمر 16 سال رہے گی۔ شمالی آئرلینڈ میں 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے والدین کی رضامندی ضروری ہے لیکن سکاٹ لینڈ میں نہیں۔
شمالی آئرلینڈ کے وزراء پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شادی کی کم سے کم عمر کو بڑھا کر 18 سال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن بعض وجوہ کی بنا پر فی الحال قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔
’جذباتی‘ دن
اس قانون کے حق میں مہم چلانے والی پیزی محمود خود کم عمری کی شادی کا شکار رہی ہیں اور ان کی بہن بناز کو اپنے شوہر کو چھوڑنے کے بعد نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس شخص سے انھیں 17 سال کی عمر میں زبردستی شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ اور ویلز میں نئے قانون کو نافذ ہوتے ہوئے دیکھنا ’شاید میری زندگی کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے۔‘
’مجھے ہر اس نقصان کا تفصیل سے علم ہے جو کم عمری کی شادی کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔ اس لیے میں اس معاملے میں بہت جذباتی محسوس کر رہی ہوں۔‘
’میں ذاتی طور پر اس سے گزری ہوں، میں نے اپنی بہن کو اس سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور میں نے اس کے تباہ کن اثرات دیکھے ہیں جو بہت ساری خواتین اور لڑکیوں پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
’جب وہ کم عمری کی شادیاں ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو انھیں موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میری بہن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔‘
پیزی کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کا مطلب یہ ہوگا کہ ’اب یہ ذمہ داری بچے پر عائد نہیں ہوگی کہ جب انھیں کم عمری کی شادی پر مجبور کیا جائے تو وہ اپنے والدین یا اپنی برادری کے خلاف رپورٹ کریں۔‘
پیزی نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف آواز اٹھائی
2021 میں حکومت کے جبری شادی یونٹ نے ایسے 118 کیسوں میں مدد فراہم کی جن میں 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی شادیاں کروا دی گئی تھیں۔
تاہم مہم چلانے والوں کا خیال ہے کہ سرکاری اعداد و شمار اس مسئلے کے حقیقی پیمانے کی عکاسی نہیں کرتے کیونکہ دیگر متاثرین مدد کے لیے نہیں پہنچ سکے ہوں گے۔
’ثقافتی غلط فہمی‘
جبری شادی کے متاثرین کی مدد کرنے والے رفاہی ادارے ’کرما نروان‘ کو امید ہے کہ نئے قانون سے کم عمری کی شادی کی نشاندہی اور رپورٹنگ میں مدد ملے گی۔
ڈائریکٹر نتاشا رتو کا کہنا ہے کہ ’یہ عام طور پر نظروں سے اوجھل بدسلوکی سے نمٹنے کے لیے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور اس سے خطرے سے دوچار افراد کو زیادہ سے زیادہ تحفظ ملے گا۔‘
وزیر انصاف ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ بچوں کو کم عمری میں شادی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، انھیں اب قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
تاہم روما (خانہ بدوش) سپورٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے مِہائی بیکا کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ ان تبدیلیوں کے بارے میں لوگوں اور اس قانون کو نافذ کرنے والوں کو کیسے آگاہ کیا جائے گا۔
انھوں نے وضاحت کی کہ روما برادریوں میں لفظ ’شادی شدہ‘ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے تعلقات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس ’ثقافتی غلط فہمی‘ کے نتیجے میں ’خاندانوں کے لیے اس کے سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں جنھیں اس قانون کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔‘
بیکا نے عملے کی تربیت پر زور دیا تاکہ وہ روما خاندانوں کا جائزہ لیتے وقت ’موجودہ دقیانوسی تصورات سے متاثر‘ نہ ہوں۔
یہ تبدیلیاں، جنھیں تمام پارلیمانی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ پولین لیتھم نے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے بل میں تجویز کی تھیں۔
Comments are closed.