انگریز راج میں دولالی صاحب اور کالے زمیندار کون تھے؟
- ریحان فضل
- بی بی سی ہندی، دہلی
ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام مغل بادشاہ اکبر کی وفات سے پانچ سال قبل 1600 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو ہوا تھا۔ اس وقت اس کمپنی کی کل لاگت 72,000 برطانوی پاؤنڈ تھی۔
1743 میں، 17 سالہ کلائیو 15 ماہ کا سفر کرنے کے بعد مدراس پہنچا۔ اسی کلائیو نے بنگال میں سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ میں شکست دے کر ہندوستان میں برطانوی راج کی بنیاد رکھی تھی۔
مشہور انڈین مصنف ایم جے اکبر کی ایک نئی کتاب حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے جس کا عنوان ہے: ’دولالی صاحب اینڈ دی بلیک زمیندار: برطانوی ہندوستان میں نسل پرستی اور بدلہ۔‘ اس کتاب میں انھوں نے تقریباً 200 سال تک جاری رہنے والے برطانوی راج کے ظلم و ستم کی داستان بیان کی ہے۔
سب سے پہلے میں نے ایم جے اکبر سے سوال کیا کہ یہ دولالی صاحب اور کالے زمیندار کون ہیں؟
انھوں نے جواب دیا کہ ’دولالی لفظ دیولالی سے آیا ہے، جو ناسک کے قریب برطانوی فوجیوں کا ٹرانزٹ کیمپ ہوا کرتا تھا۔ نہر سویز کے کھلنے کے بعد، انگریز افسروں کو ہر دو سال بعد انگلستان جانے کے لیے چھ ماہ کی چھٹی دی جاتی تھی۔‘
چھوٹے افسروں کو یہ چھٹی پانچ سال بعد ملتی، جب کہ عام فوجیوں کو اپنے ملک جانے کے لیے اس سے بھی زیادہ انتظار کرنا پڑتا۔ انگلستان جانے والے افسران اور سپاہی جہاز پر سوار ہونے سے پہلے اسی ٹرانزٹ کیمپ میں وقت گزارتے تھے۔ ان تمام لوگوں کو مقامی لوگ ’دولالی صاحب‘ کہتے تھے۔
اکبر کہتے ہیں کہ جب یہ لوگ جہاز پر سوار ہوتے تو پیچھے رہ جانے والی وہ خواتین جن سے ان کا تعلق ہوتا تھا اور ان کے والدین نوحہ کرتے تھے:
’ارے دولالی صاحب پندرہ سال میری بیٹی آپ کے ساتھ کھیلتی رہی
جناب اب آپ اسے چھوڑ کر اپنے ملک جا رہے ہیں
خدا خیر کرے جناب، جہاز آپ کو لے جا رہا ہے،
پانی کی سب سے نچلی سطح تک جا پہنچے۔‘
ایم جے اکبر کے مطابق ’1670 سے پہلے کسی انگریز عورت نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا تھا۔ انگریزوں نے یہاں کی عورتوں سے تعلقات تو رکھے لیکن شادی ہمیشہ اپنے ملک میں ہی جا کر کی۔‘
’جہاں تک کالے زمینداروں کی بات ہے، وہ ہوتے تو مقامی تھے لیکن وہ انگریزوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ نہ صرف مقامی لوگوں سے لگان وصول کرتے تھے بلکہ ان پر ظلم بھی ڈھاتے تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہBLOOMSBURY
ایم جے اکبر کی کتاب: ’دولالی صاحب اینڈ دی بلیک زمیندار: برطانوی ہندوستان میں نسل پرستی اور بدلہ‘
قحط سے قتل عام
انگریزوں کے پورے دور حکومت میں ہندوستان میں خشک سالی ہوتی رہی۔ ایک اندازے کے مطابق، 1770 سے 1915 کے درمیان، ہندوستان نے کل 22 بار بڑی خشک سالی یا قحط کا سامنا کیا۔
1769 میں بنگال میں مون سون کی بہت کم بارش ہوئی۔ خشک سالی نے پورے خطے میں ایسی تباہی مچائی کہ تقریباً ایک تہائی سے نصف آبادی ہلاک ہو گئی۔ حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ لوگ اپنے بچے بیچنے لگے۔ بعض علاقوں میں لوگوں نے مردہ لوگوں کا گوشت کھانا شروع کر دیا۔ ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے لگان میں 10 فیصد اضافہ کر دیا۔
جان کی نے اپنی کتاب ’دی آنر ایبل کمپنی: اے ہسٹری آف دی انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی‘ میں لکھا ہے کہ ’1770 کی دہائی میں لوگ مرتے چلے گئے۔ لوگوں نے اپنے مویشی اور کھیتی باڑی کے اوزار تک بیچے۔ وہ اس بیج تک کو کھا جاتے تھے جو بویا جا سکتا تھا۔ انھوں نے اپنے بیٹے بیٹیوں کو بھی بیچنا شروع کر دیا لیکن ان کو بھی کوئی خریدنے کو تیار نہ تھا۔ وہ درختوں کے پتے اور گھاس کھا کر اپنی بھوک مٹانے لگے تھے۔ تمام سڑکوں پر مردہ یا مر رہے لوگوں کا انبار لگا ہوا تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہHARPERCOLLINS
بنگال کے گورنر وارن ہیسٹنگز نے تین نومبر 1772 کو کورٹ آف ڈائریکٹرز کو لکھے گئے ایک خط میں بتایا کہ ’پوری ریاست کی ایک تہائی آبادی کی موت کے باوجود 1771 کی آمدنی 1768 کی آمدنی سے زیادہ تھی حالانکہ کاشت بھی کم ہوئی۔‘
ایسی آفت کے پیش نظر یہ توقع کرنا فطری تھا کہ محصولات میں کمی ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ محصولات کی وصولی کے لیے ہر طرح کے حربے اختیار کیے گئے۔
ہیسٹنگز نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اعتراف کیا کہ موت کے قریب پہنچے لوگوں تک سے محصول لینے کے لیے تشدد کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔
بنگال کی ایک تہائی آبادی 1770 کے قحط میں ماری گئی
گوبند رام مترا: وائٹ کالر کرائم کے سرغنہ
1772-73 میں ہاؤس آف کامنز کی سلیکٹ کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ کلائیو اور اس کے ساتھیوں نے 1757 اور 1765 کے درمیان بنگال کے کٹھ پتلی نوابوں سے 200,000 پاؤنڈ بھتہ وصول کیا۔
کلائیو نے جب ہندوستان چھوڑا تو اس کے پاس 1.8 لاکھ پاؤنڈ تھے۔ اس کے پاس ایک جاگیر بھی تھی جس سے سالانہ آمدن 27,000 پاؤنڈ تھی۔
کلائیو نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک خودمختار طاقت بنایا، جس نے 20 ملین لوگوں پر حکومت کی۔ کمپنی کے پاس 50,000 سپاہیوں کی فوج تھی اور اسے پانچ سے چھ کروڑ کے درمیان سالانہ آمدنی ہوتی تھی۔
رابرٹ کلائیو
گوبند رام مترا، جو 1720 سے 1726 تک کلکتہ کے ڈپٹی کلکٹر تھے، کو انگریزوں نے پہلا مقامی زمیندار مقرر کیا تھا۔ وہ محصول جمع کرنے کے لیے لاٹھی کا استعمال کرتے تھے۔ بنگالی زبان میں ’گوبندورمر چھڑی‘ طاقت کی علامت بن گیا۔
ایم جے اکبر بتاتے ہیں کہ ’مترا کلکتہ میں وائٹ کالر کرائم کے پہلے گاڈ فادر بنے۔ انھوں نے ٹینڈرز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے، کھاتوں میں ہیرا پھیری اور زمین کی نیلامی یا فروخت کرنے کا رواج شروع کیا۔‘
’جب نئے گورنر نے 1752 میں حساب مانگا تو مترا کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ جب اس سے پوچھ گچھ ہوئی تو اس نے جواب دیا کہ 1738 تک کا تمام ریکارڈ طوفان میں تباہ ہو گیا اور باقی کاغذات دیمک کھا گئی۔‘
ایم جے اکبر
’انصاف کا پل‘
برطانوی دور حکومت میں بدعنوانی اس حد تک تھی کہ مہاراجہ نند کمار نے 11 مارچ 1775 کو گورننگ کونسل کو خط لکھا جس میں گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز پر کچھ تقرریوں کے لیے ان سے اور میر جعفر کی بیوہ سے 45,000 پاؤنڈ کی رشوت لینے کا الزام لگایا۔
19 اپریل کو حکومت نے نند کمار پر سازش کا الزام لگایا اور چھ مئی کو انھیں جعلی دستاویزات کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
ہنری بسٹڈ اپنی کتاب ’ایکوز فرام اولڈ کلکتہ: وارن ہیسٹنگز کے دنوں کی یادیں‘ میں لکھتے ہیں، کہ مہاراجہ نندکمار کو ایک برطانوی جیوری نے قصوروار ٹھہرایا اور جج الیزا ایمپی نے ان کو موت کی سزا سنائی۔
سات اگست 1775 کو جب نندکمار کو صبح آٹھ بجے فورٹ ولیم کے قریب پھانسی دی گئی تو پورا کلکتہ وہاں جمع ہو گیا اور ماتم میں رونے لگا۔
اس کے بدلے میں ہیسٹنگز نے ایک پل کی مرمت کے لیے جج ایمپی کے ایک ساتھی کو چار لاکھ 20 ہزار روپے کا ٹھیکہ دیا، جب کہ گزشتہ سال اسی کام کے لیے 25 ہزار روپے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ تب سے کلکتہ کے لوگ جسٹس سر ایمپی کو ’جسٹس پل بندی‘ کہنے لگے۔
وارن ہیسٹنگز
نوکروں کو 100 سال تک ایک ہی تنخواہ
انگریزوں نے، جو ہندوستانی نوابوں کی تقلید کرتے ہوئے نئے رئیس بنے، نوکروں کی ایک بڑی فوج رکھی۔
ایم جے اکبر کا کہنا ہے کہ کمپنی نے پوری ایک صدی تک نوکروں کی تنخواہ میں ایک پیسہ بھی نہیں بڑھایا۔ پلاسی میں کلائیو کی فتح کے بعد حکم نامہ جاری ہوا کہ اگر کوئی نوکروں کو مقررہ رقم سے زیادہ تنخواہ دیتا ہے تو اسے سرکاری تحفظ ملنا بند ہو جائے گا اور اگر کوئی خاطر خواہ اطلاع دیے بغیر نوکری چھوڑ دے گا تو اسے بھی سخت ترین سزا دی جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک باورچی کی تنخواہ پانچ روپے ماہانہ مقرر تھی، صفائی والے کو تین روپے اور خاتون ملازمہ کو دو روپے ماہانہ ملتے تھے۔ آیا کی تنخواہ کچھ بہتر تھی کیوں کہ وہ انگریزوں کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
1770 کی دہائی میں ایک انگریز کے روزمرہ کے معمولات کو بیان کرتے ہوئے ولیم میکنٹوش لکھتے ہیں کہ ’صبح سات بجے ان کا دربان گیٹ اور برآمدہ کھولتا ہے۔ پھر چپڑاسیوں، ہرکاروں، چوبداروں، حقہ برداروں اور خانساموں کی آمدورفت شروع ہو جاتی ہے۔ ٹھیک آٹھ بجے جمعدار ان کے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ جیسے ہی صاحب اپنا پلنگ چھوڑتے ہیں، ان کو جھک کر سلام کرنے والوں کی لائن لگ جاتی ہے۔‘
وہ آگے لکھتے ہیں کہ ’آدھے گھنٹے کے بعد نوکر صاف ستھری قمیض، بریچ اور جرابیں پہنا دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حجام آتا ہے جو ان کی شیو کرتا ہے، ان کے ناخن کاٹتا ہے اور کان صاف کرتا ہے۔ پھر جب صاحب اپنا کوٹ پہنے ناشتے کی میز پر آتے ہیں تو باورچی ان کے کپ میں چائے ڈالتا ہے اور ان کو ٹوسٹ پیش کرتا ہے۔‘
’رات کو جب صاحب اپنے سونے کے کمرے میں جاتے ہیں تو ایک خاتون کو ان کی تفریح کے لیے بھیجا جاتا ہے، جو رات بھر ان کے ساتھ رہتی ہے۔‘
نوکروں کا ہجوم
شادی نہ ہونے کے باوجود تھامس ٹوئننگ کے گھر میں 44 افراد کام کرتے تھے۔ اسے پالکی میں چلنا بہت پسند تھا لیکن سفر کے دوران پالکی اٹھانے والوں کے منھ سے نکلنے والی آوازیں اسے پسند نہیں تھیں۔
ولیم ہکی اپنی سوانح عمری ’میموئرز آف ولیم ہکی‘ میں لکھتے ہیں کہ دراصل پالکی اٹھانے والوں کے منھ سے نکلنے والی آوازیں تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں تھیں۔ ’جب بھی وہ کوئی رکاوٹ دیکھتے تو پہلے ہی چیخ چیخ کر صاحب کو خبردار کر دیتے تھے کہ ایک گڑھا ہے، پانی کا تالاب ہے، یہاں اینٹیں پڑی ہیں۔‘
ہندوستان میں 25 سال گزارنے کے بعد جب ہکی انگلستان روانہ ہوا تو اس کے پاس 63 نوکر تھے جن میں نو معاون، آٹھ چوبدار، آٹھ ویٹر، آٹھ سائیس، دو باورچی، ایک حجام، ایک حقہ بردار اور تین باغبان شامل تھے۔
مشہور مؤرخ پران نیول نے بھی اپنی کتاب ’صاحب انڈیا: ویجنیٹس فرام دی راج‘ میں لکھا ہے کہ ’1840 میں ولیم ٹیلر نے ایک پینٹنگ بنائی تھی جس میں ایک برطانوی صاحب کو ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان کے پیچھے کھڑا ایک نائی بال بنا رہا ہے، داڑھی والا خانساماں ہاتھ میں چائے کا کپ لیے کھڑا ہے، ایک اور نوکر آئینہ دکھا رہا ہے اور ایک نوکر زمین پر بیٹھا ٹانگ دبا رہا ہے، جب کہ ایک اور نوکر اپنے ہاتھوں سے پنکھا جھل رہا ہے۔‘
خونی انتقام
1857 میں جب انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی ناکام ہوئی تو انگریزوں نے ہندوستانیوں سے وحشیانہ انتقام لیا۔ اس انتقام کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی اسے کئی نسلوں تک یاد رکھیں۔
ایم جے اکبر بتاتے ہیں کہ ’ایک سال تک ہر انگریز افسر کو کسی بھی مشتبہ شخص کو گولی مارنے یا پھانسی دینے یا جیل بھیجنے کی آزادی دی گئی۔ کئی جگہوں پر عام شہریوں کا قتل عام کیا گیا اور شہر تباہ کیے گئے۔ لوگوں کے جسموں کو گرم سلاخوں سے داغا گیا۔ ان کی آنکھوں میں مرچ پاوڈر ڈالا گیا۔‘
ٹائمز اخبار کے جنگی نمائندے سر ولیم رسل نے 23 فروری 1859 کو اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’لوگوں کو بلا تفریق قتل کیا گیا۔ دو دن کے اندر 42 لوگوں کو سڑک کے کنارے پھانسی دی گئی۔ گاؤں کے گاؤں بغیر کسی وجہ جلا دیے گئے۔‘
مارٹن منٹگمری نے 19 نومبر 1859 کے ٹائمز کے شمارے میں اپنے تجربات بیان کیے۔ ’میں نے 14 خواتین کی لاشیں دیکھ کر دہلی کی سڑکوں پر چلنا چھوڑ دیا، یہ ان کے اپنے شوہر تھے جنھوں نے اس ڈر سے ان کے گلے کاٹ دیے کہ کہیں وہ انگریزوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
اینگلو انڈینز کے ساتھ ناانصافی
اعلیٰ برطانوی حکام نے کبھی بھی دونوں نسلوں کے درمیان جنسی تعلقات کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ جب کنگ ایڈورڈ ہفتم نے خواہش کی کہ ہندوستانی سپاہیوں کا ایک دستہ اس کی تاجپوشی میں شرکت کے لیے انگلستان بھیجا جائے تو اس وقت کے وائسرائے لارڈ کرزن نے اسے پسند نہیں کیا۔
11 نومبر 1901 کو لندن بھیجے گئے ایک خط میں اس نے تشویش کا اظہار کیا ’شاید متوسط یا اعلیٰ طبقے کی انگریز خواتین، ان ہندوستانی سپاہیوں کے قد اور رنگین یونیفارم سے متاثر ہو کر اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیں۔‘
اس کے دور حکومت میں جب کلکتہ کے ایک ہوٹل میں انگریز بار میڈز کو لانے کی پیشکش کی گئی تو اس نے اسے اس بنیاد پر منظور نہیں کیا کہ اس سے دو مختلف نسلوں کے درمیان تعلقات کو فروغ ملے گا۔
لارڈ کرزن
انگریزوں میں یہ بات بہت عام تھی کہ ہندوستانی نژاد خواتین کو ایک الگ گھر میں لونڈی کے طور پر رکھا جاتا تھا۔
ایم جے اکبر بتاتے ہیں کہ ایسا بہت کم دیکھا گیا کہ اس طرح کے تعلقات شادیوں میں بدلے۔ کلکتہ کے بانی جاب چارنوک نے ایک خوبصورت بیوہ کی جان بچائی جو اپنے شوہر کی موت کے بعد ستی ہونے جا رہی تھی اور اسے اپنے گھر لے آئے۔ ان کے انگریز ساتھیوں کو یہ پسند نہیں آیا۔ دونوں کئی سالوں تک ساتھ رہے اور ان کے بہت سے بچے بھی ہوئے لیکن انھوں نے کبھی شادی نہیں کی۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب لارڈ کارن والس گورنر جنرل بنے تو انھوں نے اس طرح کے تعلقات سے پیدا ہونے والے اینگلو انڈین لڑکوں کو ہندوستانی فوج میں شامل ہونے سے منع کر دیا۔ یہ ایک ستم ظریفی تھی کہ انگریزوں نے ان اینگلو انڈینز کو اپنے دوست کے طور پر استعمال تو کیا لیکن ان کو کبھی بھی برابری کا درجہ نہیں دیا۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ مختلف مثالیں بھی قائم ہوئیں۔
ان کے مطابق کچھ انگریزوں نے اپنی وصیت میں ان تعلقات کو قانونی حیثیت دی۔ 1817 میں، میجر چارلس او ایلیٹ نے اپنی تین ناجائز بیٹیوں اور ایک غیر پیدائشی بچے کے لیے 35,000 پاؤنڈ چھوڑے۔ کیپٹن جیمز نکلسن نے اپنی جائیداد اپنے 10 بچوں میں برابر تقسیم کی۔ ان میں سے دو بچے ان کی برطانوی بیوی سے اور آٹھ ایک اور ہندوستانی خاتون سے تھے۔
Comments are closed.