انڈیا نے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس دہلی کی بجائے ورچوئلی منعقد کرانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
- مصنف, اننت پرکاش
- عہدہ, نامہ نگار بی بی سی
انڈیا کی مرکزی حکومت نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ 4 جولائی کو نئی دہلی میں ہونے والا ایس سی او یعنی شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اب ورچوئلی منعقد کیا جائے گا۔
اس سال ایس سی او کی صدارت انڈیا کے پاس ہے، جس کی وجہ سے یہ اجلاس نئی دہلی میں ہونا تھا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کرنا تھی۔
ان میں چینی صدر شی جن پنگ، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پیوتن جیسے رہنما شامل ہیں۔
مرکزی حکومت بھی اس اجلاس کے انعقاد کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے تیاری کر رہی تھی۔ ان رہنماؤں کو انڈیا آنے کی دعوت بھی بھیجی گئی تھی لیکن منگل کو حکومت نے اچانک اپنا فیصلہ بدل دیا۔
ایسے میں یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈین حکومت کے اس فیصلے کی کیا وجہ ہے؟
انڈیا کی وزارت خارجہ نے یہ اجلاس ورچوئلی منعقد کرنے کا اعلان تو کیا لیکن اِن پرسن اس کا انعقاد نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی۔
وزارت خارجہ کے اس اعلان کے بعد سے انڈین میڈیا میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع خبر کے مطابق حکومت کی جانب سے اس فیصلے کی وجہ ایس سی او رہنماؤں کا پروگرام سے متعلق ابہام ہے۔
کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس قدم کی وجہ انڈیا کے چین اور پاکستان کے ساتھ سرد تعلقات بھی ہیں۔
تاہم روس اور چین کے معاملات پر نظر رکھنے والے جے این یو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر راجن کمار ان دلائل سے متفق نظر نہیں آتے۔
ڈاکٹر راجن کمار کا کہنا ہے کہ ’اس دلیل میں کوئی صداقت نہیں کہ انڈیا نے یہ فیصلہ چین اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سے کیا۔‘
’انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سے قبل سمرقند کا دورہ کیا تھا اور ان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ آنے والے دنوں میں جب جی 20 کا اجلاس انڈیا میں ہو گا، تب ان ممالک کے رہنما نئی دہلی آئیں گے، ایسے میں اس دلیل میں دم نہیں کہ خراب تعلقات کی وجہ سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا فارمیٹ تبدیل کیا گیا۔‘
اس کے ہی ساتھ ڈاکٹر راجن کمار کا خیال ہے کہ دلی کے پرگتی میدان میں بنائے جانے والے کانفرنس پنڈال کے تعمیراتی کام میں تاخیر بھی اس کی وجہ نہیں لگتی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ وجہ بھی اتنی مضبوط نہیں لگتی۔ حکومت کافی عرصے سے اس میٹنگ کی تیاری کر رہی تھی۔ یہ میٹنگ کہیں بھی ہو سکتی تھی۔ گزشتہ اپریل میں خارجہ سکریٹری ونے کواترا نے راشٹرپتی بھون کے ثقافتی مرکز کا دورہ کیا تھا اور اسی جگہ ایس سی او سربراہی اجلاس منعقد کرنے پر بھی غور کیا جا رہا تھا۔‘
روسی صدر کا انڈیا آنے کا مسئلہ
اس اجلاس میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی شامل ہونا ہے اور خیال کیا جا رہا تھا کہ پوتن اس اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی آ سکتے ہیں لیکن گزشتہ ماہ ماسکو میں ہونے والے دو حملوں اور یوکرین کے ساتھ تنازع کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کے بعد، کریملن کے چیلنجز بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
یوکرین اور روس فروری 2022 سے جنگ میں ہیں۔ اس جنگ میں مغربی ممالک سے یوکرین کو اقتصادی اور فوجی ساز و سامان کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں یوکرین کے لیے لڑاکا طیارے حاصل کرنے کا راستہ صاف ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ڈاکٹر راجن کمار بتاتے ہیں کہ ’اگر اس فیصلے کی وجہ روس سے متعلق ہے تو یقیناً پوتن ایسی جنگ میں پھنسے ہیں کہ ان کے لیے روس سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ یوکرین کی جنگ اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ماسکو میں ڈرون حملہ ہوا، ایسے میں ان کے چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور انڈیا ان کے خدشات کو سنجیدگی سے لے گا۔‘
روسی خبر رساں ایجنسی تاس میں 31 مئی کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کی شرکت کے فارمیٹ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر راجن کمار کا کہنا ہے کہ ’31 مئی کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق کریملن کے ترجمان پیسکوف نے بتایا ہے کہ روسی صدر ابھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس فارمیٹ میں شرکت کریں گے لیکن اس بات میں بالکل دم نہیں کہ روس اور پاکستان کے سربراہان کی ملاقات سے پیدا ہونے والی پریشانی اس کی وجہ نہیں ہو سکتی۔ وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ وہ آنے والے تھے اور اسی لیے وہ تیاری کر رہے تھے۔‘
اجلاس کے اہتمام کے لیے راشٹر پتی بھون کا دورہ کرتے انڈین اہلکار
اچانک فیصلہ کیوں؟
انگریزی اخبار ’دی ہندو‘کے ایک ذرائع نے بتایا کہ ایس سی او سربراہی اجلاس کے انعقاد کی ایک وجہ رکن ممالک کے سربراہان مملکت کی آمد یا نہ آنے پر شک ہو سکتا ہے۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق ’حکومت کو ایس سی او ممالک کے کچھ رہنماؤں سے ان کی آمد کی تصدیق نہیں ملی۔ اس کے علاوہ یوکرین میں جاری جنگ کی گرمی ماسکو تک پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں روسی صدر پیوتن کے حوالے سے بھی شکوک پیدا ہو گئے تھے۔‘
وزیر اعظم مودی کا بھی بہت سخت شیڈول ہے۔ مودی 19 سے 24 جون تک امریکہ میں رہیں گے اور 14 جولائی کو انھیں فرانس کے قومی ڈے کی پریڈ میں شرکت کرنی ہے۔
2020 میں ایس سی او کی صدارت روس کے پاس تھی اور روس نے کووڈ کی وبا کی وجہ سے اس کا ورچوئل اہتمام کیا تھا۔ 2021 میں، یہ اجلاس تاجکستان میں منعقد ہوا اور یہ ہائبِرڈ موڈ میں تھا۔ کچھ رکن ممالک نے ورچوئلی اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پچھلے سال شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس سمرقند، ازبکستان میں منعقد ہوا تھا اور اس میں وزیر اعظم مودی سمیت تمام رکن ممالک نے شرکت کی تھی۔
حکومت کے اس فیصلے کو معنی خیز قرار دیتے ہوئے سٹریٹجک امور کے ماہر برہما چیلانی نے ٹویٹ کی کہ ’اس وقت جب یوکرین کی جنگ اپنے نازک موڑ پر ہے، سرحد پر انڈیا کے خلاف چینی جارحیت اب بھی جاری ہے۔‘
’ادھرپاکستان کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے ماحول میں ایس سی او سربراہی اجلاس کا عملاً انڈیا کی صدارت میں انعقاد بہت معنی خیز ہے۔‘
سابق سکریٹری خارجہ کنول سبل نے اسے ایک تیر سے کئی اہداف کو نشانہ بنانے کے مترادف قرار دیا۔
انھوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’ایس سی او سربراہی اجلاس کے ورچوئل ہونے سے پاکستان سے متعلق مسائل حل ہو گئے ہیں، شہباز شریف کو اس وقت سیاسی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں آنا آسان نہیں تھا، آرٹیکل 370 پر پاکستان معاملات کو پیچیدہ بنا رہا ہے اور گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھٹو کی شرکت پر ہنگامہ اور میڈیا کوریج۔‘
تاہم اس فیصلے میں اچانک تبدیلی کی وجہ کیا ہے یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا۔
Comments are closed.