انڈیا: جی ٹوئنٹی انڈیا اجلاس میں کشیدگی، روس اور امریکہ کے ایک دوسرے پر الزامات
- مصنف, وکاس پانڈے اور لیلہ نتھو
- عہدہ, بی بی سی نیوز، دلی
بھارتی وزیر اعظم نے جی20 ممالک کے وزرائے خارجہ سے عالمی امور پر اختلافات ایک طرف رکھنے کی درخواست کی ہے
بھارتی وزیر نریندر مودی کے جی ٹوئنٹی ممالک کے وزرائے خارجہ سے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھنے کی درخواست کے باوجود اجلاس میں کشیدگی کی فضا برقرار ہے اور امریکہ اور روس نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ یہ اجلاس روس کی بلااشتعال اور بلاجواز جنگ کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے یوکرین سے اناج کی برآمدات کے معاہدے کو دفنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
اس سے پہلے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ترقی پذیر ممالک کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں موجود لوگوں کی اس حوالے سے ذمہ داری ہے۔
جی 20 گروپ دنیا کے 19 امیر ترین ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل ہے جس کا عالمی اقتصادی پیداوار میں حصہ 85 فیصد ہے۔
اس اجلاس میں شرکت کے لیے روس، امریکہ، اور چین کے وزرائے خارجہ دہلی میں موجود ہیں۔
ایک سابق بھارتی سفارت کار نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین جنگ پر اختلافات کو نظر انداز کرانے کے لیے انڈیا کو ’کچھ خاص کرنا‘ پڑے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جی 20 وزرائے خارجہ سے کہا ہے کہ ہماری ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب عالمی سطح پر گہری تقسیم پائی جاتی ہے۔
اس صورتحال میں سالہا سال کی کامیابیوں کو کھونے کا خدشہ ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک خوراک اور توانائی کی اپنی ضروریات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششوں میں ناقابل برداشت قرضوں سے نبرد آزما ہیں۔
وہ امیر ممالک کی وجہ سے گلوبل وارمنگ سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جی 20 صدارت نے گلوبل ساؤتھ کو آواز دینے کی کوشش کی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک لمبے عرصے بعد کسی اجلاس میں انگلش میں خطاب کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا کتنی شدت سے چاہتا ہے کہ اس کی بات کو سنا جائے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں یوکرین جنگ کا کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا لیکن یہ تسلیم کیا کہ عالمی کشیدگی اس اجلاس میں بات چیت کو متاثر کرے گی۔
انڈیا کے جی 20 اجلاس کے لیے نعرہ ہے’ ایک دنیا، ایک خاندان، ایک مستقبل‘۔
وزیر اعظم مودی نے مندوبین پر زور دیا کہ وہ اس نعرے کو دل سے قبول کریں اور مسائل پر توجہ مرکوز کریں۔
کانفرنس کے جمعرات کے شیڈول میں غذائی تحفظ، ترقیاتی تعاون، دہشتگردی اور انسانی امداد سے متعلق سیشن شامل ہیں جو جی 20 کی صدارت کے دوران انڈیا کی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف روسی وفد کی قیادت کر رہے ہیں
انڈیا کی کوشش ہو گی کہ وہ اس ہنگامہ خیز اجلاس میں ثالثی کا کردار نبھائے اور سیاسی طور پر کم متنازعہ امور پر اتفاق رائے کی جانب پیش رفت کی جائے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس ملاقات کے بعد روس اور امریکہ پریس کانفرنس کریں گے جس میں یوکرین کے معاملے پر اختلافات کھل کر سامنے آئیں گے۔
گذشتہ ہفتے جی 20 کے وزرائے خزانہ بنگلور (بنگلورو) میں اپنے اجلاس میں کسی مسئلے پر بھی اتفاق رائے پیدا کرنےمیں ناکام رہے تھے۔
روس اور چین دونوں نے ایک اختتامی بیان کے کچھ حصوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں روس کی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔
اس کے بعد انڈیا پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اس اجلاس کا خلاصہ جاری کرے جس میں گروپ کے اندر یوکرین کی صورتحال پر مختلف آرا سامنے آئیں تھیں۔
جمعرات کے اجلاس کے آغاز میں انڈین وزیر اعظم کی تقریر سے یہ واضح تھا کہ انڈیا ایسے معاہدے کرنا چاہتا ہے جو ترقی پذیر دنیا کی مدد کرسکیں اور وہ انڈیا کے عالمی عزائم کو تقویت دے سکیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ دہلی کے پاس یوکرین جنگ کے بارے میں اپنی غیر وابستہ پالیسی کا توازن قائم کرنے کے لیے بہت مہارت سے کام کرنا ہو گا۔
مغربی ممالک نے یوکرین کے حوالے سے انڈیا کے موقف پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
انڈیا نے روس پر براہ راست تنقید سے گریز کیا ہے جس کے ساتھ اس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ اسی دوران انڈیا نے روس سے تیل کی درآمد میں اضافہ کیا جو مغربی ممالک کو اچھا نہیں لگا۔
انڈیا نے یوکرین جنگ کی مذمت کرنے سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت بھی نہیں کی ہے۔ انڈیا نے روس سے تیل کی درآمدات میں اضافے کا ہمیشہ دفاع کیا ہے۔
انڈیا نے یوکرین کے بارے میں اپنے بیانات میں ’اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور ریاستوں کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کی اہمیت کے بارے میں بات کی ہے۔
گذشتہ موسم خزاں میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم مودی کے بیان کو روس کی بالواسطہ تنقید کے طور پر دیکھا گیا تھا جس میں انھوں نے صدر پوتن کی موجودگی میں کہا تھا کہ آج کا دور جنگ کا نہیں ہے۔
مسٹر مودی اور ان کی ٹیم کی کوششوں کے باوجود اجلاس کے شروع ہونے سے پہلے ہی یوکرین پر اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یورپی یونین کے خارجہ امور اور سلامتی پالیسی کے اعلیٰ نمائندے جوزف بوریل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’اس جنگ کی مذمت کی جانی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے روس کو یہ باور کرانے کے لیے کہ یوکرین جنگ کو ختم کرنا ہے، بھارت کی سفارتی صلاحیت کو استعمال کیا جائے گا۔
بدھ کے روز انڈیا کے اعلیٰ سفارت کار ونے کواترا نے کہا تھا کہ اگرچہ یوکرین کی جنگ بات چیت کا ایک اہم نقطہ ہوگا، لیکن خوراک، توانائی اور کھاد کی حفاظت سے متعلق سوالات کو اہمیت ملے گی۔
توقع کی جارہی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات بھارت کی اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت کا امتحان لیں گے۔
Comments are closed.