انڈیا اور چین کے درمیان تنازع تائیوان کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟
- رپشا مکھرجی
- تجزیہ کار، مشرقی ایشیا
انڈیا اور تائیوان کی سرحد کے نزدیک چین کی فوجی سرگرمیوں نے چہ مگوئیوں کو جنم دیا ہے کہ آیا وہ تائیوان پر اپنا حق جمانے کے لیے انڈیا کے ساتھ جاری کشیدگی کو استعمال کرے گا یا نہیں۔
نومبر کے آغاز میں چینی فوج نے تائیوان کے نزدیک اس جگہ جنگی مشقیں کیں جسے چین دونوں علاقوں کے درمیان ’آخری چینی صوبہ‘ تصور کرتا ہے۔ یہ مشقیں امریکی وفد کے چین کے دورے کے بعد شروع کی گئیں۔
اکتوبر میں چینی فوج نے تائیوان کے ایئر ڈیفینس آئڈینٹیفیکیشن زون میں 200 لڑاکا طیارے بھیجے، جبکہ انڈیا سے ملحقہ بارڈر پر چینی دستے اونچائی پر کام کرنے والے خاص اسلحے کے ساتھ مشق کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ہمالیہ کے علاقے میں ان کے پاس سخت سردی میں وہاں پر رُکنے کا سامان بھی موجود ہے۔
امریکہ کو تائیوان میں مداخلت پر تنبیہ
حالیہ وقتوں میں چین کی ’ون چائنا‘ یعنی متحدہ چین کی سوچ اس کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا اہم جُزو رہی ہے۔
چین کے سرکاری میڈیا نے صدر شی جن پنگ کی اپنے امریکی ہم منصب کو کی گئی تنبیہ کو بھی نمایاں انداز میں جگہ دی ہے۔ صدر شی نے جو بائیڈن سے تائیوان کے موضوع پر کہا تھا کہ وہ ’آگ سے کھیل رہے ہیں۔‘ سولہ نومبر کو ہونے والی ورچوئل ملاقات میں فریقین نے متعدد متنازع موضوعات پر بات کی۔
تائیوان کی حکمراں جماعت ڈی پی پی نے ملک کے خود مختار رہنے کی اپیل کی ہے اور اس حوالے سے وہ امریکہ سے بھی مدد طلب کر رہے ہیں۔
تائیوان کی صدر سائی انگ وین کی امریکی ساختہ لڑاکا طیارے میں تصویر نے کئی سوالات کو جنم دیا
چینی جریدے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ (ایس سی ایم پی) کے 21 نومبر کو چھپنے والے اداریے میں کہا گیا کہ ’ڈی پی پی تائیوان کی الگ شناخت اور چین مخالف سوچ کو فروغ دے رہی ہے۔‘ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ تائیوان میں سیاسی فضا ’سٹیٹس کو‘ یعنی معاملات جوں کے توں برقرار رہنے کے حق میں ہے اور آزادی کے حق میں بات کرنے والے سخت گیر لوگوں کے لیے زیادہ جگہ موجود نہیں۔
نومبر کی شروعات میں چین کے سینسر شدہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ویبو‘ پر یہ بحث جاری تھی کہ چین کو تائیوان کے ساتھ جنگ کرنی چاہیے یا نہیں۔
اکیس نومبر کو ایک تجزیہ کار نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں لکھا کہ ’بیجنگ کی طرف سے تائیوان بھیجے جانے والے طیاروں اور حکومت کی طرف سے سخت بیانات کے بعد کچھ لوگوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ جنگ یقینی ہے۔‘
انڈیا کے ساتھ سرحدی کشیدگی
سنہ 2020 میں لداخ کے علاقے وادی گلوان میں ہونے والی شدید کشیدگی اور ہلاکتوں کے بعد چین نے سرحد کے نزدیک فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور ہتھیار بھی نصب کیے گئے۔
اکیس نومبر کو ہی چینی سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے چینی فوج کی مشرقی کمانڈ کو ہمالیہ کے علاقے میں مشقیں کرتے ہوئے دکھایا۔ اس میں فوجی سنائپر رائفلز، ٹینک شکن میزائلز اور گرینیڈ لانچرز کا استعمال کر رہے تھے۔
ایس سی ایم پی نے بتایا کہ 19 اکتوبر کو فوجی ذرائع سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ چین نے 100 سے زائد طویل فاصلے تک مار کرنے والے جدید راکٹ لانچرز نصب کیے ہیں تاکہ سردیوں میں ہونے والی کشیدگی کے لیے تیار رہا جا سکے۔
ادھر انڈیا اپنی طرز کی سب سے لمبی سرنگ بنا رہا ہے جو کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو لداخ کے علاقے سے جوڑے گی۔ اس سرنگ کے ذریعے فوجی تیزی سے نقل و حرکت بھی کر سکیں گے اور سامان کی ترسیل بھی سارا سال، یہاں تک کہ برفانی موسم میں بھی جاری رہے گی۔
میڈیا میں یہ بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ انڈیا فوجی ڈرونز کا ایک بیڑہ علاقے میں اونچے مقامات پر تعینات کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے
علاقائی ’پاور پلے‘
تاریخی طور پر چین کے انڈیا اور تائیوان کے ساتھ تنازعات مختلف نوعیت کے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ بین الاقوامی سیاسی منظرنامے میں دونوں ملک اس اتحاد کا حصہ ہیں جس میں ان کے مفاد ایک جیسے ہیں۔
چینی حکمراں جماعت سی سی پی کی نیشنل کانگریس کا اجلاس سنہ 2022 میں ہے اور صدر شی پارٹی پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ تنازع صدر شی کو ایک اور مدت کے لیے پارٹی کا جنرل سیکریٹری بننے میں مدد دے سکتا ہے۔
گیارہ نومبر کو انڈین خبر رساں ویب سائٹ نیوز 18 کے مطابق ایسا ممکن ہے کہ چین کی انڈیا کے خلاف کارروائیوں کا تعلق تائیوان سے ہو۔ تائیوان اور چین کے بیچ 160 کلومیٹر طویل آبی فاصلے کو طے کرنا مشکل ہے جبکہ ہمالیہ سے یہاں تک رسائی آسان ہے۔
چین اور امریکہ انڈو پیسیفک خطے میں ایک تلخ پاور پلے میں الجھے ہوئے ہیں۔ تائیوان کو امریکہ اور جاپان کی حمایت اور فوجی امداد حاصل ہے جبکہ انڈیا کواڈ نامی اتحاد کا ممبر ہے جس میں امریکہ جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ یہ اتحاد بظاہر چین مخالف پلیٹ فارم تصور کیا جاتا ہے۔
لیکن ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ اس اتحاد کا رکن ہونے کے باوجود چین کے سرحدی مسئلوں میں براہ راہست مداخلت نہیں کرتا۔ ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی اپنے اتحادیوں کی مدد کرنے کی قابلیت پر سوال اٹھیں گے۔ ایسے میں چین کے لیے تائیوان میں کام آسان ہو جائے گا۔
دوسری طرف نئی دلی کی یہ کوشش ہے کہ وہ تائیوان کے مسئلے میں نہ گھسیٹا جائے کیونکہ اس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان صرف ’خوش اخلاقی پر مبنی‘ لیکن محدود گفتگو جاری رہی ہے اور کوئی خاطر خواہ سفارتکاری دیکھنے میں نہیں آئی۔
تائیوان کے صدر نے انڈین وزیر اعظم کو ان کی سالگرہ کے موقع پر ٹوئٹر پر مبارکباد دی جس کا نریندر مودی کے اکاؤنٹ سے جواب نہیں آیا۔
انڈین اخبار دکن کرونیکل میں چار نومبر کو چھپنے والے اداریے میں یہ کہا گیا کہ تائیوان پر خاموش رہنے کا مطلب ہے کہ آپ چین کے بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں اور اس سے چینی حکمراں جماعت کو تقویت ملے گی۔
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ انڈیا تائیوان کے معاملے پر کوئی مؤقف اختیار کرتا ہے یا نہیں۔ دونوں ممالک کو دسمبر میں امریکہ طرف سے ’سمٹ فار ڈیموکریسی‘ نام کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جبکہ چین کو اس اجلاس میں نہیں بلایا گیا۔
Comments are closed.