انڈونیشیا کا صدیوں پرانا ’قیمتی‘ مشروب، جس کا ایک قطرہ بھی ضائع نہیں کیا جاتا
- مصنف, کلیئر ٹوریل
- عہدہ, بی بی سی ٹریول
جاوا کے شاہی دربار میں 13 صدیاں پہلے متعارف کروائے گئے جڑی بوٹیوں سے حاصل کردہ اس عرق کو اب انڈونیشیا کے نوجوان نئی پہچان دے رہے ہیں۔
وسطی جاوا کی گلیوں میں عورتیں احتیاط سے بانس کی بنی ٹوکریوں میں جامو کی بوتلیں بھر رہی ہیں۔ جامو گھر میں بنایا ہوا ایک شربت ہے۔ ان خواتین کے ہاتھ ہلدی سے پیلے ہیں کیونکہ انھوں نے اسے صبح تازہ پیسا ہے۔ اس کے ساتھ دیگر جڑیں، پھل، چھال اور پتے بھی اس شربت میں شامل کیے گئے ہیں۔
جیسے ہی سورج طلوع ہونے لگتا ہے، جامو بیچنے والے اپنے روزمرہ کے راستے پر پیدل یا سکوٹر پر نکل جاتے ہیں اور صرف اس وقت رکتے ہیں جب راستے میں کسی پیاسے کو اپنے اس توانائی بخش شربت کے پینے کا منتظر پاتے ہیں۔
ان میں سے کچھ کے پاس آٹھ تک بوتلیں ہوتی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں تازہ جامو ہوتا ہے جو گاہک کو، چاہے بچہ ہو یا بوڑھا، نئی توانائی بخشتا ہے۔
وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اس قیمتی مشروب کو کپ میں ڈالتے ہوئے ایک قطرہ بھی ضائع نہ ہو کیونکہ انڈونیشیا کے لوگوں کی نظر میں کڑوے ذائقے والا یہ مشروب صرف آپ کی پیاس بجھانے کے لیے تیار نہیں کیا گیا بلکہ قدیم جاوائی زبان میں جامو کا مطلب ’دعائے صحت‘ ہے۔
جامو انڈونیشیا کی ثقافت کا ایک ایسا لازمی حصہ ہے کہ اسے یونیسکو کے اِنٹینجیبل (جسے چھوا نہ جا سکے) ثقافتی ورثے کی فہرست کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
انڈونیشیائی ہربل ویلنیس ٹریڈیشن کی مصنفہ میٹا مردیا کا کہنا ہے کہ ’اس کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ جامو جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ایک دوا ہے۔ یہ ایک طرزِ زندگی ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ایک ثقافت ہزاروں نسلوں تک اپنی صحت کو کیسے برقرار رکھتی ہے۔‘
جامو بیچنے والے اسے روز تیار کرتے ہیں اور ہر مشروب الگ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے
اس مشروب کی تاریخ پرانی ہے۔ یہ پہلے پہل 13 سو سال قبل (8 ویں سے 10 ویں صدی) ماترم سلطنت کے دور میں شروع ہوا تھا۔ پہلے یہ شاہی دربار میں آیا، پھر علاج کرنے والوں نے اسے دیہات میں متعارف کروایا۔ وہاں سے اس کے نسخے اور تیار کرنے کی ترکیبیں زبانی نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں۔
جاوا میں 20 سال سے زیادہ عرصے سے رہنے والے ماہر بشریات پیٹرک وانہوبروک نے بتایا کہ ’وسطی جاوا میں نویں صدی کے مندروں پر آثار قدیمہ کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے جامو اور جڑی بوٹیوں کی دواؤں کی ترکیبیں پہلے سے ہی زیر استعمال تھیں۔‘
ماترم سلطنت کے زمانے سے آثار قدیمہ کی کھدائیوں اور تاریخوں میں جامو بنانے کے اوزار اور دستے پائے گئے ہیں۔
اگرچہ ابتدائی ترکیبیں شاہی دربار کے ریکارڈ میں پائی گئیں لیکن چار نسلوں سے جامو بنانے والی وینیسا کالانی نے کہا کہ جامو ان سے پہلے کی ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں جامو اس وقت کی بات ہے جب لوگ فطری ماحول میں رہتے تھے اور جنگل سے شفا پانے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوتا تھا لے جاتے تھے، چاہے وہ پتے ہوں یا پھول۔ یہ دیسی دوا ہے۔ اسی طرح ملائشیا کے باشندوں میں راموان یا رامو نامی جڑی بوٹیوں کے کھانے، ادویات اور خوبصورتی کی ایک روایت پائی جاتی ہے۔
جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ اس شربت میں ادرک، ہلدی، لونگ، سونف، لیمو اور املی ڈالی جاتی ہے
اگرچہ کنیت اسم (ہلدی اور املی) اور بیرس کینکر (چاول اور خوشبودار ادرک) دو سب سے مشہور جامو ہیں، انڈونیشیا کے ہر جزیرے میں مقامی جڑی بوٹیوں اور مصالحوں پر مشتمل مشروب پائے جاتے ہیں۔ وسطی جاوا جانے والوں کو میٹھی ہلدی اور املی کا ٹنکچر ملتا ہے۔
بالی کے باشندے لولو سیم سیم کے شوقین ہیں، جو آلو بخارے کے پتوں سے بنایا جاتا ہے جبکہ مولوکن جزائر میں اسے کوپی ریمپا کہتے ہیں، جو کافی اور جائے پھل، لونگ اور دار چینی جیسے مصالحوں سے تیار کیا گیا ہے۔
ہر خاندان کے پاس مشروب کا اپنا ورژن بھی ہوسکتا ہے، جو اس کے اندر جڑ کی سبزیوں کی وجہ سے کڑوا ہو سکتا ہے۔ انڈونیشیا کی وزارت صحت کی طرف سے سنہ 2012 میں کیے گئے ایک سروے میں جزیرے کے اندر 15 ہزار 773 مختلف جامو ترکیبوں کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ہر جامو میں مختلف خصوصیات ہوتی ہیں، چاہے وہ ماہواری کے درد یا بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے ہو۔ اگرچہ بہت سے اجزا کے صحت کے اپنے فوائد ہیں ہاضمے کو آسان بنانے کے لیے ہلدی سے لے کر پٹھوں کے درد کو کم کرنے کے لیے گالنگل تک جامو کو علاج سے زیادہ روک تھام کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور صحت بخش مشروب کو مجموعی طور پر دیکھا جاتا ہے، جس میں یہ جسم، دماغ اور روح کا علاج کرتا ہے۔
وان ہوبروک کہتے ہیں کہ ’بہت سے جاوائی جانتے ہیں کہ جسمانی صحت جذباتی، ذہنی اور مابعد الطبیعیاتی توانائی کی سطحوں سے متاثر ہوتی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہAcakari
اکارکی کیفے میں جامو تیار کرنے کے لیے کافی بنانے کی جدید ٹیکنیک استعمال ہوتی ہے
جب 2015 میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ جامو بنانے والوں میں سے 49.5 فیصد کی عمریں 60 برس سے زیادہ ہو چکی ہیں اور ان میں سے صرف ایک تہائی کے پاس یہ ہنر سیکھنے والے شاگرد موجود ہیں، تو خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں یہ روایت ختم ہی نہ ہو جائے لیکن کاریگروں اور کاروباری افراد کی نئی نسل اب قدیم مشروب کو نئی زندگی دے رہی ہے۔
جکارتہ میں ایک جامو کیفے اکاراکی کے مالک جونی یوونو نے دیکھا کہ دارالحکومت میں کافی بار کس طرح مقبول ہو رہے ہیں۔ اس سے ان میں ایک اور کڑوے مشروب کو پھر سے متعارف کروانے کا شوق پیدا ہوا۔ اب وہ آٹھویں صدی کے اس ٹنکچر کو بریسٹا طرز کے ماحول میں پیش کر رہے ہیں۔
یوونو کا خیال ہے کہ اس مشروب کی قدر آج بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جامو پرانا ہے یا کڑوا ہے لیکن اسے نئے انداز میں پیش کرنا ہمارا کام ہے۔‘
یونیسکو میں نامزدگی کے لیے تحقیقی ٹیم کا حصہ رہنے والے یوونو کے مطابق اکاراکی شفا یابی کے لیے درکار مثبت توانائی جمع کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
سووے اورا جامو کی بانی نووا دیوی نے جکارتہ میں اپنے جامو کیفے میں جدید انداز اپنایا لیکن وہ اس مشروب کی اصلیت کو نہیں بھولی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میری دادی ہمیشہ مجھ سے کہتی تھیں کہ اگر میں جامو بنانے میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں تو مجھے توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ وہ کہتی تھیں کہ نیت ٹھیک ہونی چاہیے۔‘
،تصویر کا ذریعہPotato Head
موجودہ نسل جامو کو نئے پیمانوں میں پیش کر کے مقبول بنا رہی ہے
مردایا اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ نیت کا مثبت ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اجزا کا۔ وہ کہتی ہیں ’مثبت ارادے جامو کا لازمی جزو ہیں کیونکہ ترکیبوں کو علاج کرنے والوں سے برادریوں اور والدین سے بچوں تک منتقل کیا گیا۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے آپ کہتے ہیں کہ یہ ماں کا بنایا ہوا چکن نوڈل سوپ ہے: یہ ٹیک اوے حاصل کرنے سے بہتر کیوں ہے؟ اس لیے کہ اسے ایک شخص نے آپ کے لیے بنایا ہے۔‘
کالانی کی جمو کی پہلی یاد وہ ہے جب انھوں نے اپنی پردادی کی فیکٹری، نیونیا مینیر کا دورہ کرنا تھا، جس کی بنیاد 1919 میں رکھی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب سے پہلی چیز جو مجھے یاد ہے وہ خوشبو تھی جس نے میرے تمام حواس کو متحرک کر دیا تھا۔ یہ خوشبو ایک کمرے سے جہاں عورتیں فرش پر یوکلپٹس کاٹ رہی تھیں، دوسرے کمرے تک جہاں وہ جڑی بوٹیوں اور مصالحوں کی چھانٹی کر رہی تھیں تک بسی ہوئی تھی۔‘
جب پانچ سال پہلے جامو پاؤڈر بیچنے والی فیکٹری بند ہو گئی، تو کالانی نے اپنی پردادی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جامو بار برانڈ کو آن لائن لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی پردادی کے کچھ سابق ملازمین، جو اب عمر رسیدہ ہیں، ان کے ساتھ کنسلٹنٹ کے طور پر شامل ہو گئے ہیں۔
کالانی نے بتایا کہ ’انھوں نے جو کچھ شروع کیا تھا، اسے جاری رکھنے کے لیے میں مجبور تھی۔ میرے پاس اب بھی ترکیبوں کی کتاب موجود ہے۔ یہ ایک خوبصورت وراثت ہے جو انھوں نے ہمارے لیے چھوڑی ہے ان کا علم، جڑی بوٹیوں سے ان کی محبت اور لوگوں کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کا ان کا جذبہ۔‘
کلانی تسلیم کرتی ہیں کہ انھوں نے صرف اپنی پردادی کی ترکیبوں سے ترغیب حاصل کی ہے اور انھیں میٹھے بنا کر آج کے ذائقوں کے لیے تبدیل کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس وقت جامو بہت تلخ تھا، اس لیے میں نے اسے جدید ذائقوں کے مطابق بنایا ہے۔‘
بالی میں ایک رستوران جہاں سیاحوں کے لیے جامو کے مختلف ذائقے دستیاب ہیں
کالانی تنہا نہیں، جنھوں نے نئے پینے والوں کے لیے جامو کو تبدیل کیا ہے۔ ہپ بالی بیچ پر واقع کلب آلو ہیڈ کے انڈونیشیائی ریستوراں کوم میں ہیڈ بارٹینڈر بینا نورگا نے بین الاقوامی سیاحوں کو ہلدی جامو کو پنڈن سے بھرے رم کے ساتھ ملا کر انڈونیشیا کا ذائقہ چکھایا ہے۔
نورگا نے کہا کہ ’چونکہ جامو ہلدی، ادرک اور پنڈن کے پتوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے یہ کاک ٹیل میں مصالحے دار ذائقے کے ساتھ ایک اچھا احساس اور تلخی بھی شامل کرتا ہے۔‘
نوجوان کاروباری افراد جامو کو مزید آگے لے جانے کے لیے پرعزم ہیں۔ تیسری نسل کے مولوکن نے حال ہی میں نیدرلینڈز میں گڈ جامو لانچ کیا ہے۔ اینا اسپیسج، جنھوں نے انڈونیشیا میں اپنے ورثے کے بارے میں جاننے کے لیے سات سال گزارے، کووڈ19 کے دوران نیدرلینڈز واپس آ گئیں۔
بالی میں جامو بنانے کے بعد، وہ اسے اپنی روزمرہ کا حصہ بنانا چاہتی تھیں۔ جب اسپسیج کو نیدرلینڈ میں صرف جامو پاؤڈر ملا تو انھوں نے گھروالوں اور دوستوں کے لیے تازہ ہلدی اور ادرک کا جامو بنانا شروع کر دیا۔ یہ بات پھیل گئی اور اب وہ اپنے ’گڈ جامو‘ برانڈ کو آن لائن اور ملک بھر میں فروخت کرتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ نارنجی رنگ کا جوس ڈچ خریداروں کو الجھن میں ڈال سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا تھا کہ یہ میٹھا ہوگا‘ لیکن وہ پھر بھی اس کا ذائقہ پسند کرتے ہیں۔‘
اب وہ اپنے برانڈ کو جرمنی لے جانے کا ارادہ رکھتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مغربی ذائقوں کی خاطر جامو کے اجزائے ترکیبی کو تبدیل نہیں کیا: ’یہ ثقافتی ورثہ ہے اور میں اس میں کمی نہیں لانا چاہتی۔‘
Comments are closed.