انڈونیشیا میں خاتون کی ایئرپورٹ کی لفٹ سے گرنے سے ہلاکت: ’ایک عالمی معیار کےائیرپورٹ پر یہ کس قسم کی سکیورٹی ہے‘

Indonesia

،تصویر کا ذریعہCCTV

انڈونیشیا کے ہوائی اڈے پر ایک خاتون لفٹ کے دروازے کے غلط سیٹ سے گزرنے اور شافٹ سے نیچے گرنے سے ہلاک ہو گئی ہیں۔

ہوائی اڈے کے عملے کو 38 برس کی عیسائے سنتا دیوی کی لاش تین دن بعد اس وقت ملی جب حکام نے ایئرپورٹ پر پھیلنے والی بدبو کی تحقیقات کا حکم دیا۔

ہوائی اڈے کے ترجمان نے پیر کو سی این این انڈونیشیا کو بتایا کہ معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ لفٹ معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ معائنہ کب کرایا گیا تھا۔

سنتا دیوی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں سنتا دیوی کے 24 اپریل کو شمالی انڈونیشیا میں ’میدان‘ کے کوالانامو ہوائی اڈے پر لفٹ سے گرنے سے پہلے کے آخری لمحات دیکھے جا سکتے ہیں۔

وہ دروازے کے ایک سیٹ سے لفٹ میں داخل ہوئیں، پھر دوسری منزل کے لیے بٹن دبانے کے لیے مڑیں۔ وہ کھڑی رہیں اور انتظار کرتی رہیں، اور اپنے فون کو دیکھنے لگیں اور ایسے میں ان کے پیچھے دروازے کا دوسرا سیٹ کھل گیا۔

اس کے بعد پھر وہ دوبارہ لفٹ کا بٹن دباتی دکھائی دیں، ابھی تک انھیں وہی دروازے دکھائی دے رہے تھے جن سے وہ داخل ہوئی تھیں۔ اس کے بعد سنتا دیوی ایک پریشان کن فون کال کرتی نظر آئیں جب بند دروازوں سے باہر نکلتے ہوئے انھوں نے خالی جگہ قدم رکھا۔ اس کے بعد ان کی لاش ہوائی اڈے کے عملے کو بدبو کی شکایات کے تین دن بعد شافٹ کے نیچے سے ملی۔

یہ بھی پڑھیے

سنتا دیوی کی فیملی کا جب ان سے رابطہ منقطع ہو گیا اور وہ انھیں ائیرپورٹ ٹرمینل پر تلاش کرنے میں ناکام ہوئے تو پھر انھوں نے ایئرپورٹ کے عملے سے ان کی تلاش میں مدد طلب کی۔ اطلاعات کے مطابق مرنے سے قبل سنتا دیوی نے اپنی بھتیجی کو فون کیا کہ وہ کہیں مشکل میں پھنس گئی ہیں۔

سنتا دیوی کے بھائی راجہ ہیسبون نے اس کی ذمہ داری لفٹ کی ناقص سکیورٹی پرعائد کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک عالمی معیار کا ایئرپورٹ ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ اس جگہ پر یہ کس قسم کےسیکورٹی کے معیارات ہیں۔

عملے کی طرف سے دیا جانے والا جواب بہت عدم اطمینان والا تھا۔

پولیس نے ایئرپورٹ اور سکیورٹی حکام سمیت 12 گواہان سے تفتیش کی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق حقائق تک پہنچنے کے لیے وہ مزید گواہان کے بیانات بھی قلمبند کرسکتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ