انتقام یا حادثہ۔۔۔؟ وہ پراسرار کھانا جو تین جانیں نگل گیا
- مصنف, ٹیفینی ٹرنبل
- عہدہ, بی بی سی نیوز، سڈنی
دو ہفتے قبل آسٹریلیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک خاندان کے پانچ افراد دوپہر کے کھانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ جس کے بعد ایک ہفتے کے دوران ہی ان میں سے تین افراد ہلاک ہو گئے جبکہ چوتھا زندگی و موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔
پانچواں شخص جو ایک خاتون تھیں، اپنے مہمانوں کو کھانے میں زہر دینے کے الزام میں زیر تفتیش ہیں۔
لیکن 48 سالہ خاتون ایرن جنھوں نے یہ کھانا پکایا تھا، کا کہنا ہے کہ انھیں کچھ علم نہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور کیسے ہو گیا۔ وہ اپنے خاندان سے بہت پیار کرتی ہیں اور وہ انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔
تاہم وجوہات جو بھی ہوں اس معاملے نے نہ صرف پولیس کو چکرا دیا بلکہ پورے آسٹریلیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
’نفرت یا حادثہ‘
غیر معمولی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب گیل اور ڈان پیٹرسن میلبورن کے جنوب مشرق میں دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک چھوٹے سے قصبے لیونگاتھا میں اپنی بہو ایرن پیٹرسن کے گھر دوپہر کے کھانے کے لیے رکے تھے۔
ان کے ہمراہ گیل کی بہن ولکنسنز ہیدر اور ان کے شوہر این بھی تھے۔
یہ چاروں افراد قریبی قصبے کورمبورا کے بہت مقبول رکن تھے، جہاں این مقامی بیپٹسٹ چرچ کے پادری تھے۔
لیکن یہ دوپہر کا کھانا ان کے لیے عام کھانے جیسا نہیں تھا کیونکہ کھانا کھانے کے چند گھنٹوں بعد ہی چاروں افراد کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی اور انھیں مقامی ہسپتال میں معائنے کے لیے جانا پڑا جہاں انھیں ابتدائی طور پر کہا گیا کہ انھیں گیسٹرو کا مسئلہ ہے۔
لیکن ان کی طبیعت زیادہ بگڑنے پر جلد ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ معمولی گیسٹرو کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لہذا ان چاروں کو فوری طور پر میلبورن کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا تاکہ انھیں بہترین طبی سہولیات مل سکیں۔
اس کے باوجود 66 سالہ ہیدر اور 70 سالہ گیل جمعے کے روز جبکہ 70 سالہ ڈان کی سنیچر کے روز ہلاکت ہو گئی تھی۔ 68 سالہ این اس وقت ہسپتال میں تشویشناک حالت میں زیر علاج ہیں اور انھیں جگر کا سنگین مرض لاحق ہو گیا ہے جس کے باعث وہ جگر کی پیوند کاری کا انتظار کر رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ چاروں افراد نے ڈیتھ کیپ مشروم کھائے تھے، جو انتہائی مہلک ہوتے ہیں تاہم حیران کن طور پر ان کے ساتھ کھانا کھانے والی ایرن بالکل ٹھیک ہیں۔
اور اس کے علاوہ کچھ واضح نہیں۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین نہیں کہ آیا ایرن نے بھی وہ ہی کھانا کھایا جو انھوں نے اپنے مہمانوں کو کھلایا۔
تفتیش کاروں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے شوہر سے الگ ہو چکی تھیں، جو پیٹرسن کے بیٹے ہیں لیکن یہ علیحدگی ’خوشگوار‘ طور پر ہوئی تھی۔
اگرچہ ’انتقامی یا نفرت کی بنیاد پر‘ عمل کے شبہ کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ان ہلاکتوں کی تفتیش کرنے والی ہومیسائڈ سکواڈ کے ڈین تھامس نے پیر کو رپورٹرز کو بتایا کہ ’اس وقت ہلاکتوں کی وجہ نامعلوم ہے۔‘
’یہ ایک حادثہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ابھی ہم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے اور کہہ سکتے۔‘
ایرن کا کہنا ہے کہ ’جو کچھ ہوا انھیں یقین ہی نہیں آ رہا۔‘
اپنے گھر کے باہر روتے ہوئے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ کس مہمان کو کھانے میں کیا پیش کیا گیا تھا یا کھانے میں موجود مشرومز کہاں سے آئے تھے۔
لیکن انھوں نے اس سارے معاملے میں اپنے بے گناہ ہونے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کچھ نہیں کیا، میں ان سے پیار کرتی تھیں۔‘
علاقے میں خوف و ہراس
اس واقعے کی خبر علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جس کے بعد وہاں خوف پایا جاتا ہے۔ مقامی میئر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایسا کچھ یہاں ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کسی نے کب ایسا سوچا تھا کہ وپ لوگ جنھوں نے علاقے کے لیے اتنا سب کچھ کیا ان کے ساتھ ایسا ہو گا۔ لوگ اس واقعے پر بہت عمزدہ ہیں۔‘
متاثرہ خاندانوں نے ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ مقامی برادری میں ’یقین کے ستونوں‘ کی مانند تھے۔
ان خاندانوں کی جانب سے ایک مقامی اخبار میں شائع بیان میں کہا گیا کہ ’ان کی محبت، کامل یقین اور معاشرے کے لیے بے لوث خدمت نے کورمبرا چرچ، مقامی آبادی پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔‘
لیکن زیر تفتیش ایرن بھی صدمے کی حالت میں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری ماں نہیں اور گیل میرے لیے ماں ہی تھیں۔ وہ ان چند بہترین افراد میں سے تھے جنھیں میں جانتی ہوں اور مجھے بہت دکھ ہے کہ وہ سب جا چکے ہیں۔‘
یہ پہلا موقع نہیں جب وکٹوریہ ریاست مشرومز (کھمبیوں) کے زہر خورانی کے واقعات سے لرز اٹھی ہے اور مشرومز کی بڑھتی مقبولیت کے ساتھ اکثر ڈیتھ کیپ مشرومز کو کھانے کے قابل مشرومز کے طور پر سمجھنے کی غلطی میں اضافہ ہوا۔
یہ ڈیتھ کیپ مشرومز دنیا بھر میں ٹھنڈے اور مرطوب آب و ہوا والے علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور وہ دیگر زہریلے مشرومز کی اقسام سے بہت کم خطرناک دکھائی دیتے ہیں۔
دنیا میں زہریلے مشرومز سے ہونے والی 90 فیصد اموات ان کے کھانے سے ہوتی ہیں۔ اگر ان کا ایک سکے کے برابر ٹکڑا کھا لیا جائے تو وہ ایک شخص کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے۔
سنہ 2020 میں وکٹوریہ میں زہریلے مشرومز کھانے کے نتیجے میں آٹھ افراد کو ہسپتال داخل کیا گیا تھا اور ان میں سے ایک کی موت ہو گئی تھی۔
حکام نے ایک بار پھر لوگوں سے کہا ہے کہ وہ خود چنے ہوئے جنگلی مشرومز نہ کھائیں۔
ہومی سائڈ سکواڈ کے ڈین تھامس کہتے ہیں کہ ’اگر آپ نے انھیں سپرمارکیٹ سے نہیں خریدا تو یقیناً ان سے دور رہیں۔‘
Comments are closed.