امریکی فوجی نے کابل میں امریکی فوج کے ’تباہ کن‘ انخلا کو روتے ہوئے بیان کیا
ٹائلر ورگاس اینڈریوز: ’وہاں ناقابلِ معافی ذمہ داری کا فقدان نظر آرہا تھا۔‘
- مصنف, نادین یوسف
- عہدہ, بی بی سی نیوز
ایک سابق امریکی فوجی جو افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت بری طرح زخمی ہوا تھا، اُس نے کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 2021 کا امریکی فوج کا انخلا انتہائی انتہائی ’تباہ کن‘ تھا۔
ٹائلر ورگاس اینڈریوز نے ری پبلِکن پارٹی کی زیرِ قیادت اُس کمیٹی کے سامنے بیان دیا جو کابل سے امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت جو بائیڈن انتظامیہ کے طریقہِ کار کا جائزہ لے رہی ہے۔
ٹائلر نے انتہائی تفصیل کے ساتھ اُس دن کے واقعات کا ذکر کیا جس کے اگلے دن طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔ اُس نے اپنے بیان میں کہا کہ کابل میں امریکی حکومت اس انخلا کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں تھی۔
اس موقع پر دیگر افراد نے اس واقعہ کے نتیجے میں ہونے والے ذہنی صدمے اور اتحادیوں کو چھوڑ کر بھاگ جانے کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ کا ذکر کیا۔
25 برس کے سارجنٹ ورگاس اینڈریوز ان فوجیوں میں شامل تھے جنھیں 26 اگست سنہ 2021 کو اُس وقت کابل ایئر پورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی تھی جب دو خودکش حملہ آوروں نے اُن افغانوں کے اُس ہجوم پر حملے کیے تھے جو امریکی انخلا کے وقت طالبان سے بچنے کے لیے وہاں جمع ہوئے تھے۔
ان خود کش حملوں سے 13 امریکی فوجیوں سمیت 170 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔
سارجنٹ ورگاس اینڈریوز نے کانگریس میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اور ایک اور امریکی میرین کو اس حملے سے پہلے ہی اس حملے کی انٹیلیجنس رپورٹ مل چکی تھی اور اُس نے مبینہ حملہ آوروں کو ہجوم میں دیکھ بھی لیا تھا۔
اس نے کہا کہ اُس نے اپنے سپروائزر کو حملے کے بارے میں آگاہ کیا اور کارروائی کرنے کے لیے اُن سے اجازت مانگی تھی جو اُسی کبھی نہیں ملی۔
سارجنٹ ورگاس اینڈریوز نے کہا ’سادہ سے بات یہ ہے کہ ہمیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔‘
سارجنٹ ورگاس کے مطابق امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت کابل میں مکمل بدانتظامی تھی۔
کانگریس کے سامنے جذباتی انداز میں دیے گئے بیان میں اُس نے بتایا کہ کس طرح خود کش حملے کے دوران اُس کے ساتھیوں کے جسم ہوا میں اڑے اور جب اُسے ہوش آیا تو اس کے ساتھیوں کی وہاں لاشیں نظر آئیں۔
اس نے کہا کہ ’میرا سارا جسم اس دھماکے کی وجہ سے بے حس سے ہوگیا تھا۔ میرا پیٹ پھٹ گیا تھا۔ میرے جسم کا ہر وہ حصہ جو دھماکے کی زد میں تھا وہ بم کے ٹکڑوں اور لوہے کے بال بیئرنگز سے چھلنی ہو چکا تھا۔‘
سارجنٹ ورگاس اینڈریوز نے فوجی انخلا کو ’تباہ کن‘ قرار دیا، اور مزید کہا کہ ’وہاں ناقابلِ یقین حد تک ذمہ داری کا فقدان تھا اور انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔‘
اس نے کہا کہ ’میرے سامنے وہ تمام چہرے آجاتے ہیں جنھیں ہم بچا نہ سکے، جنھیں ہم وہاں چھوڑ آئے۔‘
افغانستان سے سنہ 2021 میں امریکی افواج کے انخلا کے واقعات کی تحقیق کرنے والی امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے اُن امریکی فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کے بیانات بھی سنے جو انخلا کی وجہ سے ذہنی صدمے کی وجہ سے ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل سکاٹ مان جو اُس وقت افغانوں کو وہاں سے نکالنے کے کام پر مامور تھے، نے کہا کہ اتحادیوں کو وہاں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کا ان کا تجربے نے ظاہر کیا کہ یہ نظام ’مکمل طور پر تباہ شدہ‘ تھا۔
اُس نے مزید کہا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد سینیئر فوجیوں کی جانب سے ہنگامی امداد طلب کرنے کے لیے ٹیلی فونز کی کالیں 81 فیصد بڑھ گئی تھی، اس کے بعد انھوں نے خبردار کیا کہ ’امریکہ کو اُس وقت ذہنی بیماریوں کی ایک سونامی کا سامنا تھا۔‘
انھوں نے کہا ان کے ایک ساتھی جو اُن کے ہمراہ کام کر رہے تھے انھوں نے اس واقعہ کے اثرات کی وجہ سے خودکشی کرلی تھی۔
امریکی کرنل نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو چھوڑ کر بھاگ جانے ملک کی بدنامی اپنے منہ پر مل رہا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل مان نے کہا کہ ’اُس نے جو اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے جو تاریکی محسوس کی وہ اُس صدمے سے نجات نہ پا سکا۔‘
اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے فوجیوں کی اکثریت نے افغانستان کے واقعات کی ذمہ داری جارج ڈبلیو بش سے لے کر جو بائیڈن تک تمام صدور پر عائد کی۔
ان گواہوں نے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں اور امریکہ میں موجود جتنے بھی اتحادی ہیں ان سب کی فوری طور پر مدد کی جائے۔
لیفٹیننٹ کرنل مان نے کہا کہ ’ویت نام کے مونٹاگنارڈ سے لے کر شام کے کردوں تک امریکہ اپنے اتحادیوں کو ان کے برے وقت میں انھیں چھوڑ کر بھاگ جانے کے ایک نظام کی وجہ سے آنے والی کئی نسلوں کے لیے اپنے منہ پر ایک گندی بدنامی مل رہا ہے۔‘
ری پبلِکن پارٹی جو کافی عرصے سے افغانستان سے امریکی فوجوں ے کے انخلا کے وقت بد انتظامی کی شکایتوں کی انکوائری کا مطالبہ کرتی رہی ہے وہ اس سارے واقعہ کی ذمہ داری جو بائیڈن کی حکومت پر عائد کرتی ہے۔
امریکی ریاست ٹیکساس سے منتخب شدہ رکن کانگریس مائیک مکال جو اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں، کہتے ہیں کہ افغاسنتان سے انخلا کے وقت وفاقی حکومت میں ہر سطح پر ایک انتظامی تعطل تھا، اور جو بائیڈن کی حکومت میں ایک حیرت انگیز قائدانہ ناکامی دیکھی گئی۔‘
ری پبلِکن پارٹی کی اس بات کے جواب میں ڈیموکریٹ پارٹی جو بائیڈن کا دفاع کر رہی ہے۔
نیویارک سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس گریگری میکس نے کہا ہے کہ جو بائیڈن نے ’تمام فوجیوں کو واپس گھر بلا کر درست فیصلہ کیا تھا۔‘
’میں اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ میں امریکی عورتوں اور مردوں کو افغاسنتان بھیجوں۔‘
صدر جو بائیڈن اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ ’وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ اس کے بنیادی طور پر ذمہ دار‘ ہیں، لیکن انھوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی طالبان کے ساتھ انخلا کے معاہدے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
Comments are closed.