یوکرین جنگ: روسی افواج کی ’یوم فتح‘ سے قبل خارخیو پر شدید بمباری، ماریوپل کے سٹیل پلانٹ سے شہریوں کا انخلا مکمل
یوکرینی افواج خارخیو کے خطے میں مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں
یوکرین کے علاقے خارخیو میں شدید لڑائی جاری ہے اور یوکرینی افواج یہاں اپنا کنٹرول بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ادھر یوکرین کی نائب وزیر اعظم ایرینا ویریشچک کا کہنا ہے کہ تمام معمر افراد، خواتین اور بچوں کا ماریوپل شہر کے آزوفستال سٹیل پلانٹ سے انخلا مکمل کر لیا گیا ہے۔
یوکرینی افواج نے سنیچر کو بتایا کہ انھوں نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارخیو کے پانچ قصبوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کا آپریشن مداخلت کے خلاف کامیاب ثابت ہو رہا ہے اور اس حوالے سے یہ اہم پیشرفت ہے۔
خارخیو میں فروری سے شدید شیلنگ جاری ہے۔ خطے کے گورنر نے سنیچر کو کہا کہ روسی دستے اب بھی شہریوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ انھوں نے شہریوں سے گھروں سے باہر نہ نکلنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ فضائی حملوں کے سائرنز کو نظر انداز نہ کریں۔
یوکرین کو خدشہ ہے کہ نو مئی سے قبل روسی شیلنگ مزید بڑھ سکتی ہے۔ روس اس دن 1945 میں نازی جرمنی کو شکست دینے کی خوشی میں ‘وکٹری ڈے’ یا یوم فتح مناتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف دی سٹڈی آف وار کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرینی دستے خارخیو کے قریبی مقامات پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ یوکرین کی مزاحمت سے روس پر دباؤ بڑھے گا اور اس طرح یہ ‘روسی سرحد کی طرف مزید پیشرفت حاصل ہوسکے گی۔‘
خارخیو میں بچوں کے ایک ڈاکٹر ہبانوف پیولو نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ محفوظ پناہ گاہوں یا شیلٹرز میں چھپے ہوئے ہیں اور ملازمتوں پر نہیں جا رہے۔ ’شہر میں زندگی معمول کے مطابق نہیں۔ خارخیو روسی سرحد سے کافی قریب ہے اور یہ شہر اکثر حملے کی زد میں آتا ہے۔ افسوس ہے کہ جنگ جاری ہے اور ہم بغیر کسی ڈر کے نہیں رہ سکتے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ جس ہسپتال میں وہ کام کرتے تھے اسے شیلنگ میں تباہ کر دیا گیا ہے۔
پیولو کا کہنا ہے کہ ہسپتال سے کئی بار شیلز ٹکرائے اور وہاں اب طبی سہولیات فراہم کرنا ممکن نہیں۔ روسی (فوجی) ہر وقت گولیاں چلاتے ہیں۔ میں اب ایک دوسرے ہسپتال میں کام کر رہا ہوں۔’
سنیچر کو شہر کے ایک میوزیم کو تباہ کر دیا گیا جب اس کی چھت پر شیلنگ کی گئی۔ مگر یہاں سے قیمتی فنپارے پہلے ہی ہٹا لیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ اور ریڈ کراس نے اس آپریشن میں معاونت کی
ماریوپل کے سٹیل پلانٹ سے شہریوں کا انخلا مکمل
قریب 100 شہریوں کے انخلا کا آپریشن ایک ہفتہ قبل شروع کیا گیا تھا اور اس میں اقوام متحدہ اور ریڈ کراس نے معاونت کی تھی۔
یوکرینی افواج نے بمباری سے متاثرہ اس پلانٹ پر مزاحمت دکھائی ہے۔ یہ شہر کا آخری حصہ ہے جو روسی افواج کے کنٹرول میں نہیں۔
روس نے اس پلانٹ کا کئی ہفتوں سے محاصرہ کر رکھا تھا اور مزاحمت کرنے والوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یوکرین کی نائب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ انسانی ہمدردی کا آپریشن اب مکمل ہوگیا ہے۔
ماریوپل پر قبضہ روسی دستوں کے لیے اہم اس لیے ہے کیونکہ اس سے کریمیا اور ڈونباس کے بیچ زمینی راستوں تک رسائی حاصل کی جا سکے گی۔ اس سے انھیں یوکرین کے بحیرۂ اسود کے 80 فیصد سے زیادہ ساحل کا کنٹرول مل جائے گا۔
مگر اس کوشش میں انھوں نے ماریوپل پر توپوں، راکٹوں اور میزائلوں سے حملہ کیا اور شہر کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ تباہ کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یوکرین کے شہر ماریوپل کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ تباہ ہو گیا ہے
آگے کیا ہوسکتا ہے؟
بی بی سی کی لارا بیکر بتاتی ہیں کہ روسی فوجی شہریوں کے انخلا کے لیے سفید پرچم استعمال کر رہے تھے۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ پیشرفت ہوئی ہے اور مذاکرات کی خاطر جانیں بچائی جا رہی ہیں۔
تاہم کریملن کی افواج نے گذشتہ دنوں کے دوران جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود سٹیل پلانٹ پر لڑائی کی شدت بڑھائی ہے۔
اب یوکرینی حکومت پر دباؤ ہے کہ ماریوپل میں اس مقام پر اپنے قریب دو ہزار فوجی استعمال کرتے ہوئے مزید مزاحمت دکھائیں۔ انھوں نے ہتھیار نہ ڈالنے کا وعدہ کیا ہے۔
یوکرینی خاندانوں نے عالمی رہنماؤں نے محفوظ انخلا اور امن مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر کریملن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہم بڑا جشن منائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس روز سرکاری دورے کا کوئی منصوبہ نہیں۔
Comments are closed.