امریکہ کے عراق اور شام میں فضائی حملوں میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کو نشانہ بنایا گیا
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ’صدر بائیڈن یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ وہ امریکی افواج کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں گے‘
پینٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے عراق اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج پر اس ملیشیا کے ڈرون حملوں کے جواب میں ’آپریشنل اور ہتھیار ذخیرہ کرنے والی سہولیات‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ’صدر بائیڈن یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ وہ امریکی افواج کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں گے۔‘
جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف فضائی حملوں کا یہ دوسرا دور ہے۔ عراق میں مقیم امریکی افواج حالیہ مہینوں میں ڈرون حملوں سے متعدد بار نشانہ بنی ہیں۔
ایران نے ان ڈرون حملوں میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
تقریباً 2500 امریکی فوجی، بین الاقوامی اتحاد کے ایک حصے کے طور پر عراق میں موجود ہیں۔ یہ افواج شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔
پینٹاگون کے بیان کے مطابق ان فضائی حملوں کے دوران شام میں دو اور عراق میں ایک ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ سہولیات ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا گروہ بشمول کاتب حزب اللہ اور کاتب سید الشہدا استعمال کرتے تھے۔
سنہ 2009 کے بعد سے، امریکہ نے عراق کے امن و استحکام کو خطرہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے، کاتب حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ حملے اپنے دفاع میں کیے ہیں اور ’ضروری، مناسب اور جان بوجھ کر کی گئی اس کارروائی کا مقصد اضافی خطرے کو محدود کرنے کے علاوہ ایک واضح اور غیر جانبدار پیغام بھیجنا بھی تھا۔‘
جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف فضائی حملوں کا یہ دوسرا دور ہے
پینٹاگون نے یہ نہیں بتایا کہ ان حملوں میں کوئی ہلاک یا زخمی ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ میں مقیم مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ شام میں ’امریکی جنگی طیاروں کے حملے میں‘ ملیشیا کے پانچ جنگجو ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
شام کے سرکاری خبر رساں ادارے صنا نے کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ایک بچے کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ کم از کم تین دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سنہ 2003 میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کرنے والے امریکہ کے زیر قیادت حملوں کے بعد سے عراق کے داخلی معاملات پر ایران کے اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب ایران 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے بارے میں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت جوہری کارروائیاں روکنے کے بدلے میں ایران کے خلاف پابندیاں ختم کردی گئی تھیں۔
اکتوبر 2020 میں نطنز کے جوہرے پلانٹ کی سیٹیلائٹ سے لی گئی تصویر
اسرائیل اس معاہدے کی ہمیشہ سے مخالفت کرتا رہا ہے۔ اسرائیل سمیت کچھ ممالک کا خیال ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کی ایران تردید کرتا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے ایران پر دوبارہ جوہری پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
Comments are closed.