افغانستان: امریکہ کی کابل ڈرون حملے میں ہلاکتوں پر مالی معاوضے کی پیشکش
امریکہ نے افغانستان میں ڈرون حملے کی ’افسوسناک غلطی‘ میں ایک خاندان کے 10 افراد ہلاک ہونے پر مالی معاوضے کی پیشکش کی ہے۔
رواں سال اگست کے اواخر میں امریکہ کے مکمل فوجی انخلا سے قبل کابل میں اس ڈرون حملے میں ایک امدادی کارکن اور ان کے خاندان کے نو افرا ہلاک ہوگئے تھے۔ ان میں سات بچے شامل تھے۔
پینٹاگون نے کہا ہے کہ وہ متاثرہ خاندان کے باقی افراد کی امریکہ منتقلی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی واپسی اور اقتدار سنبھالنے کے کچھ روز بعد شدت پسند گروہ نام نہاد دولت اسلامیہ خراساں کی جانب سے کابل ایئرپورٹ کے قریب ایک خوفناک حملہ کیا گیا تھا۔ اسی دھماکے کے بعد معصوم شہریوں پر امریکہ کی جانب سے یہ ڈرون حملہ کیا گیا تھا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینیتھ میکنزی نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ 29 اگست کو امریکی خفیہ اداروں نے آٹھ گھنٹوں تک اس امدادی کارکن کی گاڑی کو ٹریس کیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ افغانستان میں دولت اسلامیہ کے مقامی گروہ سے منسلک ہیں۔
تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ اس شخص کی کار دولت اسلامیہ خراساں سے منسلک ایک کمپاؤنڈ کے قریب موجود تھی۔ امریکی انٹیلیجنس کو موصول ہونے والی رپورٹس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ کابل ایئرپورٹ پر مزید حملے ہوسکے ہیں۔
ڈرون سے بننے والی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ یہ شخص دھماکہ خیز مواد سے ملتی جلتی چیز گاڑی میں رکھ رہا ہے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ان کنٹینرز میں پانی تھا۔
جنرل میکنزی نے اس ڈرون حملے کو ’افسوسناک غلطی‘ تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ طالبان اس انٹیلیجنس اطلاعات کا حصہ نہیں تھے۔
امدادی کارکن زمیری احمدی ایئرپورٹ کے قریب اپنے گھر میں داخل ہوئے تھے جب ان پر ڈرون حملہ کیا گیا۔
اس حملے کے فوراً بعد ایک دوسرا دھماکہ ہوا تھا جسے امریکی حکام نے ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا کہ گاڑی میں واقعی دھماکہ خیز مواد تھا۔ تاہم تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ دھماکہ گاڑی کے قریب موجود ایک سیلنڈر کے پھٹنے سے ہوا تھا۔
ہلاک ہونے والے افراد میں سے ایک احمد ناصر نے امریکی فوج کے ساتھ بطور مترجم کام کیا تھا۔ ان میں ایسے افراد بھی موجود تھے جنھوں نے بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ماضی میں کام کیا تھا اور ان کے پاس امریکہ داخلے کے ویزے بھی تھے۔
معاوضے کی پیشکش
پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مالی معاوضے کی پیشکش جمعرات کو کی گئی۔ اسے دفاعی پالیسی کے سیکریٹری کالن کال اور افغانستان میں امدادی تنظیم نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے صدر سٹیون وون کے درمیان ملاقات میں زیر بحث لایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
امریکی وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ ’کالن کال نے (ملاقات میں) بتایا کہ مسٹر احمدی اور دیگر ہلاک ہونے والے افراد معصوم شہری تھے جن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ دولت اسلامیہ خراساں سے منسلک تھے نہ امریکی افواج کے لیے کوئی خطرہ۔‘
انھوں نے سیکریٹری دفاع لوئیڈ آسٹن کے وعدے کو دہرایا جس میں اس خاندان کے لیے ’تعزیتی ادائیگیاں‘ شامل ہیں۔
آسٹن نے اس حملے پر معافی مانگی ہے لیکن احمدی کے 22 سالہ بھانجے فرشاد حیدری نے کہا ہے کہ یہ معافی ناکافی ہے۔
کابل میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’انھیں یہاں ہمارے سامنے آ کر معافی مانگنا ہوگی۔‘
افغانستان میں امریکی انخلا کے آغاز کے ساتھ طالبان نے بہت جلد ملک کے اہم علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔ پھر صرف دو ہفتوں میں 15 اگست کو انھوں نے کابل کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔
اس سے امریکہ اور ان کی اتحادی افواج اور شہریوں کے انخلا کا عمل تیز ہوگیا تھا۔ ہزاروں لوگ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے کئی غیر ملکی افراد یا وہ افغان شہری تھے جو بیرون ملک حکومتوں کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
کابل ایئر پورٹ پر دولت اسلامیہ خراساں کے حملے کے بعد سکیورٹی کی صورتحال مزید خراب ہوچکی تھی۔ 26 اگست کو ایک خودکش حملے میں 170 شہری اور 13 امریکی فوجی ایئرپورٹ کے باہر ہلاک ہوگئے تھے۔
مرنے والوں میں سے کئی افراد کو اگلے چند دنوں میں انخلا کی پروازوں پر سفر کرنے کی امید تھی۔
امریکی انخلا کے لیے طے صدر جو بائیڈن کی ڈیڈلائن کے تحت آخری امریکی فوجی 31 اگست کو افغانستان سے اپنے ملک کے لیے روانہ ہوئے۔
اس سے قبل ایک لاکھ 24 ہزار غیر ملکیوں اور افغانوں کو دیگر ممالک میں منتقل کیا گیا تھا۔ لیکن کچھ لوگ وقت پر افغانستان چھوڑ نہ سکے جبکہ انحلا کا عمل اب بھی جاری ہے۔
Comments are closed.