جو بائیڈن: امریکی صدر کی جانب سے سنہ 1915 میں ہونے والا آرمینیائی قتل عام ’نسل کشی‘ قرار، ترکی کا مذمتی بیان
جو بائیڈن پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں جنھوں نے سرکاری طور پر 1915 میں آرمینیائی باشندوں کے ہونے والے قتل عام کو ‘نسل کشی’ قرار دیا ہے۔
یہ قتل عام سلطنت عثمانیہ کے دور حکمرانی کے آخری چند سالوں میں ہوا تھا۔ لیکن ترکی میں یہ انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور ترک حکومت اس قتل عام اور وہاں ہونے والے مظالم کو تو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کے لیے ‘نسل کشی’ کے لفظ کو استعمال کرنا غلط سمجھتی ہے۔
امریکی صدر کے بیان کے بعد ترکی کے وزیر خارجہ میولت چووشولو نے کہا کہ ‘ترکی مکمل طور پر امریکی فیصلے کو مسترد کرتا ہے۔‘
انھوں نے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ‘کسی کے الفظ تاریخ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہم کسی اور سے اپنی تاریخ کے بارے میں سبق نہیں لیں گے۔’
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
بعد میں ترکی کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے باضابطہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ترک حکومت نے امریکی سفیر کو طلب کیا ہے تاکہ ترکی امریکہ کو اپنے ‘سخت رد عمل’ سے آگاہ کر سکے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ‘ہم سخت الفاظ میں امریکی صدر کے بیان کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں، جو انھوں نے 1915 میں ہونے والے واقعات کے بارے میں دیے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ان کے بیان کی نہ قانونی حیثیت ہے نہ تحقیقی، اور نہ ہی اس کے کوئی شواہد ہیں۔’
ترکی کے وزیر خارجہ میولت چووشولو نے کہا کہ ‘ترکی مکمل طور پر امریکی فیصلے کو مسترد کرتا ہے
اس بیان میں ترک حکومت نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا کہ یہ بیان دونوں ملکوں کے مابین اعتماد اور دوستی پر اثرانداز ہوگا اور امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ اپنی اس غلطی کو ٹھیک کریں۔
دوسری جانب آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشنیان نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھا جس میں انھوں نے امریکی صدر کے بیان کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ’اس نسل کشی کو تسلیم کرنا نہ صرف ہلاک ہونے والے ان 15 لاکھ معصوم باشندوں کے لیے خراج تحسین ہے بلکہ یہ مستقبل میں بھی انسانیت کے خلاف ہونے والے ایسے مظالم کو روکنے کا سبب بن سکتا ہے۔’
واضح رہے کہ ماضی میں کسی بھی امریکی انتظامیہ نے ان واقعات کو باضابطہ طور پر ‘نسل کشی’ قرار نہیں دیا تھا تاکہ ترکی سے تعلقات خراب نہ ہوں، جو کہ نیٹو فوجی اتحاد کا اہم جزو ہے۔
سنہ 1915 میں کیا ہوا تھا؟
سلطنت عثمانیہ میں ترکوں نے روس کے ہاتھوں شکست کے بعد مسیحی آرمینین افراد پر ’غداری‘ کا الزام لگایا اور انھیں شام کے صحراؤں اور دیگر علاقوں میں بھیجنا اور ملک بدر کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس اقدام کے بعد لاکھوں کی تعداد میں آرمینیائی افراد یا بھوک اور بیماری سے ہلاک ہو گئے یا انھیں قتل کر دیا گیا۔
اس قتل عام کو اس وقت کے صحافیوں اور سفارتکاروں نے بھرپور طور پر اہم سمجھا تھا اور اس کے کئی عینی شاہدین تھے۔
لیکن ان واقعات میں ہلاک ہونے والے آرمینیائی باشندوں کی تعداد پر مسلسل بحث ہوتی رہی ہے۔
آرمینیائی باشندے کہتے ہیں کہ ان کے کم از کم پندرہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ترکی کی جانب سے تین لاکھ کے قریب ہلاکتوں کو گنا جاتا ہے۔
دوسری جانب محققین کی خود مختار تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جنوسائڈ سکالرز ان اموات کا تخمینہ ‘دس لاکھ سے زیادہ’ لگاتی ہے۔
ترک حکام اس قتل عام کو تسلیم ضرور کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کی یہ نیت نہیں تھی کہ آرمینیائی نسل کے مسیحی افراد کو نقصان پہنچایا جائے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں بڑی تعداد میں مسلمان ترکوں کی بھی ہلاکت ہوئی تھی۔
امریکی صدر نے کیا کہا؟
امریکی صدر کے بیان میں کہا گیا کہ ‘ہم ان تمام افراد کو یاد کرتے ہیں جو عثمانیہ دور میں ہونے والی نسل کشی کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے اور ہم اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ مستقبل میں دوبارہ ایسا ظلم کبھی نہیں ہونے دیں گے۔’
صدر بائیڈن کے بیان میں کہا گیا کہ اس کی نیت یہ قطعی نہیں ہے کہ کسی کو مورد الزام ٹھیرایا جائے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے رپورٹرز کو بتایا کجہ ‘نسل کشی’ کا لفظ استعمال کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ انتظامیہ انسانی حقوق پر توجہ دینا چاہتی ہے۔
سنہ 1981 میں چالیس برس قبل اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے ہالوکاسٹ کے حوالے سے دیے گئے ایک بیان میں بھی ‘آرمینیائی نسل کشی’ کے الفاظ استعمال کیے تھے لیکن بعد میں آنے والے صدور نے اس کو استعمال نہیں کیا۔
صدر بائیڈن سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس واقعہ کو ‘نسل کشی’ قرار نہیں دیا تھا تاہم صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ ’20ویں صدی میں ڈھائے گئے بدترین مظالم میں سے ایک تھا۔’
Comments are closed.