امریکہ کا 113 میل طویل تیرتا ہوا ہائی وے کیا واقعی دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے؟
- مصنف, ٹریسی ٹیو
- عہدہ, بی بی سی ٹریول
جب میں بحر اوقیانوس اور خلیج میکسیکو کے درمیان چمکتے ہوئے پانیوں کے درمیان میلوں کے فاصلے پر پھسلتا چلا جا رہا تھا تو سیگل یعنی بحری بگلے میرے سر پر شور مچا رہے تھے۔ نیلا آسمان سمندر میں اُترتا محسوس ہو رہا تھا اور وہاں کا پانی مرجان اور چونے کے پتھر کے جزیروں کے درمیان پانی کے کم ہونے کی وجہ سے فیروزی ہو گیا تھا۔
میں نے جیسے ہی اپنے دھوپ کے چشمے کو درست کیا مجھے اپنی آنکھ کے کونے سے کسی حرکت کی دھندلی سی جھلک نظر آئی۔ ایک بوتل جیسی ناک والی ڈولفن! اس کے ساتھ اس کے دوست تھے۔ میں ادھر دیکھا تو اس جھنڈ نے اپنے آبی بیلے کا مظاہرہ کیا۔ لہروں میں سمانے سے پہلے انھوں نے کمان یا قوس قزا کی طرح کی چھلانگ لگائی۔
ماہی گیری والی کشتیاں میرے ارد گرد سست روی سے گھوم رہی تھیں اور میں ان کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن ہائی وے پر 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ایسا کرنا مشکل تھا۔
میامی سے فلوریڈا کے ’کی ویسٹ جزیرے‘ تک کا سفر ہمیشہ اتنا آسان نہیں رہا ہے جو آج ہے۔ 20 ویں صدی کے ابتدائی حصے میں براعظم امریکہ کے سب سے جنوبی مقام تک سفر کرنے کا واحد راستہ ایک دن کی کشتی کی سواری تھی، اور وہ بھی موسم اور لہروں کے رحم و کرم پر ہوا کرتی تھی۔
لیکن انجینئرنگ کے ایک حیرت انگیز کارنامے کی بدولت جسے اوورسیز ہائی وے کہا جاتا ہے اور جو مین لینڈ کے جنوبی سرے سے 42 پلوں کے ذریعے 44 ٹراپیکل جزیروں کے درمیان 113 میل تک پھیلا ہوا ہے یہ سفر پرلطف ہو گیا ہے۔
اس سے گزرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بظاہر مینگروو کے جنگلات اور مونگوں کی چٹانوں والے جزائر کے درمیان تیر رہا ہوں۔ میں ڈرائیو کرتے ہوئے اس جگہ پہنچ گیا جہاں شمالی امریکہ اور کیریبین جزائر ملتے ہیں۔
اوورسیز ہائی وے دراصل اوور سی ریل روڈ کے طور پر شروع ہوئی تھی، اور یہ دوراندیش اور بصیرت والے ڈویلپر ہنری موریسن فلیگلر (جنھیں جدید فلوریڈا کا بانی کہا جاتا ہے) کی اختراع تھی۔
سنہ 1870 میں فلیگلر نے بڑے بزنس میگنیٹ جان ڈی راک فیلر کے ساتھ مل کر سٹینڈرڈ آئل کمپنی کی بنیاد رکھی جو 20ویں صدی کے آغاز میں دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور کارپوریشنز میں سے ایک بن گئی۔ فلوریڈا کا دورہ کرنے اور ‘دی سنشائن سٹیٹ’ میں سیاحت کے فروغ کی صلاحیت کو تسلیم کرنے کے بعد فلیگلر نے اپنی زیادہ تر دولت اس خطے میں ڈال دی۔
انھوں نے اس علاقے میں پرتعیش ریزورٹس بنائے جس نے امریکہ کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک کو شمال مشرقی امریکہ سے آنے والے گلڈڈ دور (امریکہ کا 1876 سے 1896 کا دور جب بڑی تبدیلی رونما ہو رہی تھی) کے مسافروں کے لیے موسم سرما کی بہشت میں تبدیل کر دیا۔ اس کے باوجود مہمانوں کے لیے فلیگلر کے شاندار لیکن دور دراز کے ریزورٹس تک جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
چنانچہ 1885 میں فلیگلر نے فلوریڈا میں بحر اوقیانوس کے ساحل کے ساتھ منسلک ریل روڈز کی ایک سیریز کو فلوریڈا کے شمالی سرے پر واقع جیکسن ویل سے ریاست کے جنوبی سرے کے قریب واقع میامی سے جوڑ دیا۔
میامی میں ریل لائن کا اختتام ہو جانا چاہیے تھا، لیکن جب امریکہ نے سنہ 1904 میں پاناما کینال پر تعمیر شروع کی تو فلیگلر نے کی ویسٹ میں ترقی کی زبردست صلاحیت دیکھی جو کہ نہر کے لیے امریکہ کی سرزمین کا سب سے قریبی ٹکڑا تھا اور جنوب مشرقی امریکہ میں سب سے گہری بندرگاہ بھی تھا۔
سگار، سپنجنگ اور ماہی گیری کی صنعتوں کی بدولت یہ پرشور حصہ پہلے ہی پھل پھول رہا تھا (کی ویسٹ 1900 تک فلوریڈا کا سب سے بڑا شہر تھا)، لیکن جزیرے کے دور دراز مقام نے سامان کو شمال کی طرف نقل و حرکت کو مشکل اور مہنگا بنا رکھا تھا۔
لہذا، فلیگلر نے اپنے ٹریک کو 156 میل جنوب میں کی ویسٹ تک لے جانے کا فیصلہ کیا جس کا زیادہ تر حصہ کھلے سمندر میں پڑتا تھا۔ یہ کی ویست کا نام نہاد ایکسٹینشن ان کے بہت سے ہم عصروں کے خیال میں ناممکن الحصول پروجیکٹ سمجھا گیا اور ان کے ناقدین نے ان کے وژن کو ‘فلیگلرز فولی’ (فلیگر کی غلطی) کا نام دیا تھا۔
سنہ 1905 اور 1912 کے درمیان آنے والے طوفانوں میں سے تین سمندری طوفانوں نے تعمیراتی جگہ پر تباہ پھیلائی جس میں 100 سے زائد مزدور ہلاک ہو گئے۔ لیکن فلیگر کے ارادے اٹل رہے اور وہ اپنے منصوبے پر سرگرم عمل رہے۔
اور ریل کا راستہ بنانے میں انھیں سات سال کے ساتھ پانچ کروڑ امریکی ڈالر کے اخراجات آئے۔ اس کے لیے انھوں نے چار ہزار افریقی امریکی، بہامیائی اور یورپی تارکین وطن کی خدمات حاصل کیں۔ ان سبھی کام کرنے والوں کو مگرمچھ، بچھو اور سانپوں کا سامنا تھا اور وہ سخت حالات میں یہ کارنامہ انجام دے رہے تھے۔
جب سنہ 1912 میں بالآخر ریلوے مکمل ہو گئی تو اسے ‘دنیا کا آٹھواں عجوبہ’ کہا گیا۔ ٹرین کے پہلے سفر میں لکڑی کے ایندھن سے چلنے والے انجن کی مدد سے ریال میامی سے کی ویسٹ پہنچی اور اس وقت 82 سالہ فلیگلر اپنی پرائیویٹ لگژری کیریج کار سے باہر نکلے (جو پام بیچ کے فلیگلر میوزیم میں موجود ہے) اور مبینہ طور پر انھوں نے اپنے ایک دوست سے سرگوشی کی: ‘اب میں خوشی سے مر سکتا ہوں۔ میرا خواب پورا ہو گیا ہے۔’
فلوریڈا کے تاریخ دان بریڈ برٹیلی نے کہا: ‘حقیقت یہ ہے کہ فلیگلر نے ان دنوں اپنی جیب سے [اس میں سے 30 ملین ڈالر سے زیادہ کی] مالی امداد کی۔ جیف بیزوس یا بل گیٹس آج ایسا کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں؟ ایلون مسک اپنے سپیس ایکس کے ساتھ ان کا جدید ترین موازنہ ہو سکتے ہیں۔’
یہ ریل روڈ سنہ 1935 تک چلتی رہی لیکن پھر صدی کے سب سے مہلک سمندری طوفان میلوں تک اس کی پٹریوں کو بہا لے گیا۔ دوبارہ تعمیر کرنے کے بجائے فلیگلر کے کارنامے کو امریکیوں کی آٹوموبائل سے نئی محبت سے ممیز کرنے کے لیے خیال نے سر ابھارا۔
سنہ 1938 میں امریکی حکومت نے فلیگلر کے بظاہر ناقابل تباہ پلوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کی سب سے طویل ایک پانی سے دوسرے پانی تک جانے والی سڑکوں میں سے ایک کی تعمیر کا آغاز کیا۔ یہ سڑک 200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور طوفان کو برداشت کر سکتی تھی۔
عملے نے کاروں کے لیے پٹریوں پر راستہ ہموار کیا، نئی شروع ہونے والی اوورسیز ہائی وے نے ہمیشہ کے لیے دور دراز والے فلوریڈا کیز کو ایک ایسے ترقی پذیر سیاحتی مقام میں تبدیل کر دیا جس کی بدولت وہ وہاں تک پہنچا جہاں آج ہے۔
ریل روڈ کی تکمیل کے ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد بھی اصل پلوں میں سے 20 اب بھی مسافروں کو میامی سے کی ویسٹ تک لے جاتے ہیں۔ آپ چار گھنٹے سے کم وقت میں ڈرائیو کر تے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں، لیکن راستے سے بھٹکنا بھی تفریح کا حصہ ہے۔
ریڈار کے نیچے کے سٹاپوں کا دلکش سلسلہ مسافروں کو بہتر انداز میں اس بات کی تعریف کرنے پر مجبور کرتا کہ آخر انجینئرنگ کا یہ کمال کیسے تیار ہوا ہوگا، اور فلوریڈا کیز پر اس کا کیونکہر دیرپا اثر ہوا ہوگا۔
میامی سے 68 میل جنوب میں کی لارگو فلوریڈا کیز کا سب سے شمالی حصہ ہے اور یہ پہلا پڑاؤ ہے۔ گھڑیال، سانپوں اور دیگر پانی کے حشرات نے فلیگلر کے تعمیراتی عملے کو خوفزدہ کر دیا ہو گا، لیکن اب مسافر کی لارگو (خود ساختہ ‘دنیا کا غوطہ خوری کا دارالحکومت’) آتے ہیں اور اس سمندری حیاتیات پر بحر حیرت میں غوطے لگاتے ہیں۔
جان پینیکمپ کورل ریف سٹیٹ پارک سے ملحق فلوریڈا کیز نیشنل میرین سینکچری ایسے سنورکیلرز اور غوطہ خوروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے جو شمالی امریکہ کی واحد زندہ مرجان سے بھری چٹانوں میں اپنے آپ کو غرق کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
یہاں کے سمندری گھاس کے بستر مچھلیوں، مانیٹیوں (آبی بھینسوں) اور سمندری کچھوؤں کے لیے ایک اہم مسکن فراہم کرتے ہیں، لیکن اصل کشش کرائسٹ آف دی ڈیپ کے پھیلے ہوئے بازوں میں تیرنا ہے جہاں پانی میں موجود عیسیٰ کا 9 فٹ بلند کانسی کا مجسمہ ہے جو سنہ 1965 سے زائرین کو دیکھ رہا ہے۔
ایک بار جب آپ خشک ہو جائیں تو اسلاموراڈا کی طرف جائیں جو میامی اور کی ویسٹ کے درمیان آدھے راستے پر ایک جگہ ہے جو کبھی اوور سی ریل روڈ سٹیشن کی جگہ تھی۔ یہاں کے کیز ہسٹری اینڈ ڈسکوری سینٹر میں ایک 35 منٹ کی دستاویزی فلم ریل روڈ کی تعمیر اور اس میں حائل بہت سی رکاوٹوں کو اجاگر کرتی ہے۔
میوزیم میں ٹرین کے سنہری دور کے نوادرات بھی رکھے گئے ہیں، جس میں ریل میں ملنے والے پکوان بھی شامل ہیں، ساتھ ہی وہاں ایک اصل مینو بھی ہے جس میں گائے کی ران کے پارچے کی قیمت 1.60 ڈالر لکھی ہوئی ہے۔
سنہ 1908 سے 1912 کے درمیان تقریباً 400 کارکنان اسلاموراڈا سے 35 میل جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے مرجان والے جزیرے پیجن کی پر ایک کیمپ میں رہ رہےتھے جبکہ سمندر کے اوپر ریل روڈ کا سب سے مشکل حصہ جو اچ سیون میل برج (جسے بول چال میں پرانا سیون کہا جاتا ہے) تعمیر کیا جا رہا تھا اور یہ درمیانی اور نچلے کیز کو جوڑتا ہے۔
سنہ 1909 میں سول انجینئر ولیم جے کروم کو کھلے پانی میں 6.8 میل کے پھیلاؤ پر پل تعمیر کرنے کا مشکل کام سونپا کیا گیا۔ تعمیراتی عملے نے چوبیسوں گھنٹے کام کیا، راستے کے سب سے طویل پل کو بنانے کے لیے 700 سے زیادہ معاون ڈھیروں کو سمندر کے وسط میں ٹکانے کی کوشش کر رہے تھے کبھی کبھی ان کی گہرائی سطح سمندر سے تقریباً 30 فٹ نیچے تک چلی جاتی تھی۔ ان کی مدد غوطہ خوروں نے کی اور انھوں نے ریل کی پٹری کے وزن کو سہارا دینے کے لیے پانی کے اندر کنکریٹ کے چبوترے بنانے میں مدد کی۔
پرانے تعمیراتی کیمپ کی باقیات تک پرانے پل پر ٹرالی لے کر رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تقریباً د اعشاریہ دو میل کا سیکشن (واحد حصہ جو قابل رسائی ہے) جنوری 2022 میں 44 ملین ڈالر کی لاگت سے پانچ سالہ تزئین و آرائش کے بعد دوبارہ کھولا گیا۔
عام ٹریفک کے لیے بند یہ پل اب ایسے لوگوں کے لیے محفوظ ہے جو شفاف پانی سے 65 فٹ اوپر سائیکل چلانا یا رولر بلیڈ کرنا چاہتے ہیں یا سمندری زندگی جیسے سمندری کچھوے اور نرس شارک کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت پیجن کی کے چار مستقل رہائشی ہیں۔ پانچ ایکڑ پر محیط یہ جزیرہ اب ایک قومی تاریخی سنگ میل ہے اور بنیادی طور پر شمسی توانائی پر چلایا جاتا ہے۔ یہاں ایک میوزیم بھی ہے جو متعدد عمارتوں کے گائیڈڈ دورے کرواتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ سات میل پل کی تعمیر کے دوران عملے کی روزمرہ کی زندگی کیسی تھی۔
اوورسیز ہائی وے پر پورا سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ سفر اس وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ کی ویسٹ میں کا سنگ میل دیکھتے ہیں۔
میوزیم میں کی ویسٹ کی 500 سالہ تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ سات مربع میل کا ٹراپیکل جزیرہ قزاقوں کی پناہ گاہ سے تجارتی مرکز میں تبدیل ہوا اور ایک سیاحتی مقام بن گیا جو اپنے قیام کے لیے مشہور ہے۔ ریلوے کے دور کے نوادرات میں پے ماسٹر کی گاڑی شامل ہے جو ریلوے ملازمین کو تنخواہیں فراہم کرنے کے لیے ایک قسم کے موبائل بینک کے طور پر کام کرتی تھی۔
جدید دنیا کی آٹھویں حیرت انگیز نمائش میں ریلوے کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے اور وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح 20 ویں صدی کے اوائل کی ٹیکنالوجی کی حدود کو آگے بڑھا کر ہر رکاوٹ پر قابو پایا گیا۔
فلوریڈا کیز کے مؤرخ اور مصنف ڈاکٹر کوری کنورٹیٹو کا کہنا ہے کہ ’اگر مجھے فلوریڈا کیز کی تاریخ کا سب سے بااثر واقعہ قرار دینا پڑے تو یہ بلاشبہ فلیگلر کے اوور سی ریلوے کی تکمیل ہو گی۔ ان کے وژن، لگن، انٹرپرائز اور دور اندیشی کے ذریعے کیز پہلی بار امریکی سرزمین سے منسلک ہوئے۔ اس نے کیز کی معیشت کے راستے کو ہمیشہ کے لیے متاثر کیا اور موجود سیاحت کی صنعت کے دروازے کھول دیے۔
Comments are closed.