امریکہ نے روسی علاقے بلگوروڈ میں چھاپا مار کارروائی سے لاتعلقی ظاہر کی ہے
روس کے وزیرِ دفاع نے امریکہ کی ’ہموی‘ فوجی جیپ سمیت کئی مغربی ممالک کی فوجی گاڑیوں کی تباہ شدہ حالت کی تصویریں جاری کی ہیں جنھوں نے ان کے بقول روسی خطے بلگوروڈ میں چھاپا مار کاروائی میں حصہ لیا تھا۔
- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکہ نے روس میں ہونے والی اُس چھاپہ مار دراندازی سے لا تعلقی ظاہر کی ہے جس کے بارے میں روس نے کہا ہے کہ یوکرین سے داخل ہونے والے مسلح تخریب کاروں نے اس کے ایک علاقے بلگوروڈ میں کی تھی اور جسے شکست دے کر ختم کردیا گیا۔
بلگوروڈ کے سرحدی علاقے کا کچھ حصہ پیر کے روز ایک چھاپہ مار فوجیوں کے حملے کا نشانہ بنا تھا۔ یہ گزشتہ سال روس کے ہمسایہ ملک یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سرحد پار سے ہونے والے سب سے بڑے حملوں میں سے ایک حملہ تھا۔
روس نے بعد میں اس حملے میں تباہ ہونے والی فوجی گاڑیوں کی تصاویر جاری کیں جن میں امریکہ کی بنای ہوئی ’ہموی‘ جیپیں بھی شامل ہیں۔
امریکہ نے اصرار کیا کہ اس نے ’روس کے اندر حملوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ ہی ان حملہ کرنے والوں کی کوئی مدد کی۔‘
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ’سوشل میڈیا اور دوسری جگہوں پر گردش کرنے والی‘ رپورٹس کو تسلیم کیا کہ امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کا ملک ’اس وقت ان رپورٹس کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔‘
منگل کو ایک نیوز بریفنگ میں امریکی ترجمان، میتھیو ملر نے مزید کہا کہ ’یہ یوکرین پر منحصر ہے کہ وہ اس جنگ کو کیسے لڑتا ہے۔‘
یوکرین کے کچھ عسکری ماہرین اور بلاگرز نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے جاری تباہ شدہ امریکی گاڑیوں کی تصویریں ایک من گھڑت ڈرامہ بھی ہو سکتی ہیں۔‘
سرحد کے قریب بلگوروڈ کے دیہات کو حملے کی زد میں آنے کے بعد خالی کرا لیا گیا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ 70 حملہ آور مارے گئے، اور اس نے اصرار کیا کہ یہ حملہ آور جنگجو یوکرائنی تھے۔
لیکن کیئو نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ اور روسی صدر ولادیمیر پوتِن کے مخالف دو روسی نیم فوجی گروپوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ چھاپہ مار دراندازی کی کارروائی کی تھی۔
پیر کے چھاپے کے نتیجے میں ماسکو نے انسداد دہشت گردی آپریشن کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں روسی حکام کو مواصلات اور لوگوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے خصوصی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
یہ اقدامات اس چھاپا مار کارروائی کے اگلے دِن ہی اٹھائے گئے تھے۔ اس وقت بھی ایک نیم فوجی گروپوں میں سے ایک یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ اس کا اب بھی روسی علاقے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر کنٹرول ہے۔
اس خطے کے گورنر ویاچسلاو گلادکوف نے کہا کہ اس حملے کے دوران ایک شہری ہلاک ہوا تھا اور متعدد زخمی ہوئے۔
بعد میں ہونے والی پیش رفت میں انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ منگل کی رات ’بڑی تعداد میں‘ ڈرون حملوں کا نشانہ بنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملوں سے نجی گاڑیوں، گھروں اور دفتروں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
مسٹر گلادکوف نے یہ بھی کہا کہ ڈرونز کے جوق در جوق حملوں سے گریوورون ضلع میں ایک گیس پائپ لائن کو نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے بدھ کی صبح ایک چھوٹی سی آگ بھی لگ گئی تھی۔
متحارب فریقوں کے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے، حالانکہ بی بی سی یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ روس کی اہم سیکیورٹی ایجنسی ایف ایس بی کے زیر استعمال عمارت تشدد کے دوران متاثر ہونے والوں میں شامل تھی۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیسے نقصان پہنچا ہے۔
ایک اور روسی تصویر میں ایک تباہ شدہ گاڑی کو دکھایا گیا ہے جس کی ایک جانب روسی زبان میں ’باخموت کے لیے‘ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔
بلگوروڈ میں لڑائی پر تبصرہ کرتے ہوئے روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ ’یوکرائنی قوم پرست تنظیم کے ایک دستے‘ نے چھاپا مار کارروائی کرنے کے لیے روس کی سرزمین پر حملہ کیا ہے۔
اس کی ایک تصویر میں ایک تباہ شدہ گاڑی کو دکھایا گیا ہے جس پر روسی زبان میں ’باخموت کے لیے‘ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ یہ یوکرین کے اُس شہر کا حوالہ ہے جس پر روس کا کہنا ہے کہ اس نے حال ہی میں قبضہ کر لیا ہے، کیئو روس کے اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔
آرٹلری اور ہوائی حملوں میں ’یوکرینی دہشت گردوں‘ کے طور پر بیان کیے گئے درجنوں افراد کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ روسی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ بقیہ جنگجوؤں کو واپس یوکرینی سرحد کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے۔
لیکن یوکرین کے حکام نے کہا کہ حملہ آور روسی تھے جن کا تعلق لبرٹی آف رشیا لیجن سے ہے اور انھیں روسی رضاکار کور (RVC) کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
دو نیم فوجی گروپوں کی سوشل میڈیا پوسٹس ان کی اس حملے میں شرکت کی تصدیق کرتی نظر آئیں ہیں۔ دونوں گروپوں نے یوکرین کے پبلک براڈکاسٹر سسپلن کو یہ بھی بتایا کہ وہ ’روسی فیڈریشن کے ساتھ سرحد پر ایک غیر فوجی زون بنا رہے ہیں جہاں سے وہ یوکرین پر گولہ باری نہیں کر سکیں گے‘۔
روسی سرزمین پر کوئی بھی حملہ مغربی ممالک کے نیٹو فوجی اتحاد میں شامل رہنماؤں کی پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پیش رفت کیئو کے لیے ایک ملی جلی اچھی خبر بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
سرحد پار سے حملہ ماسکو کے لیے باعثِ شرمندگی بنتا ہے، اور مہینوں کی شدید اور خونریز لڑائی کے بعد مبینہ طور پر باخموت پر کنٹرول کھونے کی خفت مٹانے کے لیے یوکرین اب کوئی راستہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
آئندہ چند ہفتوں میں’جوابی حملے‘ سے پہلے یہ یوکرین کی روس کے خلاف کارروائیوں کی حکمت عملی کا بھی حصہ ہو گا، جس کا مقصد روسی فوجیوں کو جنوب سے ہٹانا ہے جہاں کیئف کے حملے کی توقع ہے۔
لیکن یہ ایسی پیش رفت نہیں ہے جس کا مغرب کی طرف سے خیر مقدم کیا جائے گا۔
طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار جو ان ممالک نے کیئف کو فراہم کیے ہیں جو کہ اس حملے میں استعمال نہیں ہوئے ہیں، پھر بھی اس شرط کے ساتھ یوکرین کو سپلائی کیے جاتے ہیں کہ وہ انہیں روس کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔
کیئو کی طرف سے سرکاری تردید کے باوجود یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ چھاپہ یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس کی مدد کے بغیر شروع کیا گیا تھا۔
یہ بات کریملن کے موقف میں شامل ہے کہ روس کی اپنی خودمختاری اور سلامتی اس وقت مغرب کی حمایت یافتہ بدنیت قوتوں کے حملے کی زد میں ہے۔
ان حملوں کے بارے میں رپورٹوں سے روس کے اس موقف تقویت ملے گی کہ ان حملوں میں حصہ لینے والوں میں انتہائی دائیں بازو کے یوکرینی شامل ہیں اور روس نیو نازی یوکرین سے جان چھُڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ بلگوروڈ پر تخریب کاروں نے حملے کیے ہیں۔
Comments are closed.