امریکہ میں ’مردہ دماغ‘ شخص میں سور کے گردے کا کامیاب ٹرانسپلانٹ
- مشیل رابرٹس
- ہیلتھ ایڈیٹر، بی بی سی نیوز آن لائن
ڈاکٹروں کو اس ٹرانسپلانٹ میں دو گھنٹے لگے
امریکی ڈاکٹروں نے کامیابی کے ساتھ ایک ایسے شخص کے جسم میں سور کا گردہ ٹرانسپلانٹ کیا ہے جس کا دماغ مردہ ہو چکا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم تجربہ ہے جو مستقبل میں انسانی اعضا کے عطیات میں قلت کا مسئلہ حل کرسکتا ہے۔
جس شخص کو یہ گردہ لگایا گیا ہے وہ دماغی طور پر مردہ ہے یعنی وہ شخص پہلے سے ہی مصنوعی لائف سپورٹ پر ہے اور اس کے صحتیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ گردہ ایک ایسے سور کا ہے جس میں جینیاتی تبدیلیاں لائی گئی تھیں تاکہ انسان کا جسم اس گردے کو غیر چیز سمجھ کر مسترد نہ کردے۔
اس تجربے کا ابھی دیگر سائنسدانوں کی جانب سے جائزہ نہیں لیا گیا نہ ہی اسے شائع کیا گیا ہے لیکن ایسا کیے جانے کا منصوبہ ہے۔
اس سے پہلے اس قسم کے تجربے دوسرے جانداروں پر کیے جا چکے ہیں لیکن کسی انسان پر کیا جانے والا یہ پہلا تجربہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کے شعبے میں یہ ایک بے حد اہم پیش رفت ہے۔
ٹرانسپلانٹ کے لیے سور کے اعضا کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سور کے دل کے والوز کا انسانوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
سائز کے اعتبار سے انسانوں کے لیے سور کے اعضا ایک بہترین متبادل ہیں۔
نیوریارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ میڈیکل سینٹر میں دو گھنٹے جاری رہنے والے اس آپریشن میں ڈاکٹروں نے سور کے گردے کو مردہ دماغ شخص کی خون کی شریان سے جوڑا تاکہ اسے باقاعدہ ٹراسپلانٹ کرنے سے پہلے یہ دیکھا جاسکے کہ اگر یہ گردہ لگایا گیا تو وہ عام انسانی گردے کی طرح کام کرتا ہے یا اس شخص کا جسم اسے مسترد کر دے گا۔
یہ بھی پڑھیے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بے حد اہم تجربہ ہے
ڈاکٹروں نے اگلے ڈھائی دن تک گردے کی حرکت کا جائزہ لیا اور اس دوران متعدد چیک اپ اور ٹیسٹ کیے گئے۔
سرکردہ محقق ڈاکٹر مونٹ گومری نے بی بی سی کے ورلڈ ٹونائٹ پروگرام کو بتایا ’ہم نے اس گردے کا جائزہ لیا جو ویسے ہی کام کر رہا تھا جیسا کہ ٹرساپلانٹ کے لیے ایک انسانی گردہ کرتا۔ وہ بالکل اس طرح سے کام کر رہا تھا جیسے ایک عام انسانی گردہ کرتا ہے‘۔
’وہ بالکل عام گردے کی طرح حرکت کر رہا تھا اور اس شخص کے جسم نے اسے تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا’۔
ڈاکٹر مونٹ گومری کا خود کا دل کا ٹرانسپلانٹ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ٹرانسپلانٹ کے انتظار میں جو مریض ویٹنگ لسٹ پر ہیں ان کے لیے اعضا کا انتظام ہو۔ حالانکہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کا حالیہ تجربہ متنازعہ ہے۔
ان کا کہنا تھا ’میں لوگوں کے تحفظات سمجتھا ہوں لیکن میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ فی الوقت 40 فیصد مریض جنہیں ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے، وہ اعضا کا انتظام ہونے سے پہلے مر جائیں گے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ہم سور کو غزا کے ایک اہم ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ادویات میں اس کا استعمال ہوتا ہے، دل کے والوز کے لیے استعمال ہوتا ہے، تو مجھے لگتا ہے اس کے گردے کا انسانوں کے لیے استعمال کوئی بہت مختلف بات نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ابتدائی رسرچ ہے اور اس سمت میں مزید مطالعے کی ضرورت ہے لیکن ’اس سے ہمیں یہ اعتماد حاصل ہوا ہے کہ طبی شعبے میں یہ بھی ایک متبادل ہے‘۔
ڈاکٹروں کی وہ ٹیم جس نے یہ ٹرانسپلانٹ انجام دیا ہے
برطانیہ کے قومی طبی ادارے این ایچ ایس میں گردے کا علاج کرنے والی ڈاکٹر مریم خوصراوی کا کہنا ہے ’جانوروں کے اعضا انسانوں میں لگائے جانے کے بارے میں ہم دہائیوں سے مطالعہ کر رہے ہیں اور اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ امریکہ میں ڈاکٹروں کی ٹیم کس طرح اس رسرچ کو ایک قدم آگے لے گئی ہے۔‘
اس سے متعلق اخلاقی ضوابط کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’صرف اس لیے کہ ہم سور کے اعضا کا استعمال کرسکتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ میرے خیال سے ان سوالات کا جواب حاصل کیا جانا چاہیے‘۔
این ایچ ایس کے بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ شعبے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ فی الحال ہماری ترجیج یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانی عطیات کا انتظام کیا جائے۔ ’ابھی وہ وقت دور ہے جب سور کے گردے انسانوں میں لگائے جانے جیسا تجربہ ایک عام حقیقت بنے گا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا ’محققین اور طبی ماہرین انسانوں میں اعضا کے ٹرانسپلانٹ کو مزید بہتر اور آسان بنانے کے لیے اپنی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ مریض اس بارے میں خود ہی فیصلہ کریں اور ان کے خاندان والوں کو یہ بتایا جائے کہ اگر ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پیش آئی تو وہ اس بارے میں کیا کرنا چاہیں گے۔‘
Comments are closed.