دنیا میں قیمتوں میں اتنا اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ مہنگائی کس ملک میں ہوئی ہے؟
- نٹالی شرمن
- بزنس رپورٹر، نیویارک
گزشتہ برس ہر کاروبار میں قیمتوں میں اس رفتار سے اضافہ ہونا شروع ہوا جو اس سے پہلے دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ بڑی معیشتوں میں، جو ایک ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ امریکہ ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) کے مطابق، امریکہ میں قیمتوں میں گزشتہ سال 4.7 فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا، جو کہ گروپ آف سیون (G7) کی ترقی یافتہ معیشتوں کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ تیزی سے ہونے والا اضافہ بنتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں افراط زر صرف 2.5 فیصد تھا۔
پچھلے مہینے، امریکہ میں افراط زر کی شرح 8.6 فیصد تک پہنچ گئی، جو دنیا بھر کے ملکوں میں ایک بلند ترین شرح ہے۔
پچھلے سال مہنگائی میں اضافہ کرنے والے عوامل، جیسے کووڈ سے سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہونا اور شدید طوفانوں اور خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کے بعد خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہونا، امریکہ کے لیے منفرد نہیں تھے۔
امریکہ کی خراب کارکردگی کی وجہ؟ اس کا جواب صرف دو الفاظ میں دیا جا سکتا ہے ۔ زیادہ طلب۔
یہ امریکی حکومت کی طرف سے امریکی خاندانوں اور کاروباروں کو کووڈ کے وبائی مرض کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں کے سست ہو جانے کے نقصان سے بچانے کے لیے منظور شدہ 5 کھرب ڈالر کی سطح کے اخراجات تھے۔
حکومتی اخراجات
خاندانی مالی اعانت کے ذریعے امداد نے، جس میں گھرانوں کو براہ راست چیک کا اجراء شامل تھا، لوگوں کو خریداری جاری رکھنے میں مدد دی۔
فرنیچر، کاروں اور الیکٹرانکس جیسے سامان میں آرڈرز میں اضافہ دیکھنے میں آیا، کیونکہ خریداروں نے اس رقم کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا، مثال کے طور پر وہ ریستورانوں اور سفروں پر خرچ کر سکتے تھے۔
اور چونکہ غیر معمولی طور پر زیادہ مانگ کووڈ سے پیدا ہونے والے رسد کی رکاوٹوں سے مسائل کا شکار ہوئی تو رسد کی اس کمی کی وجہ سے کاروبار کرنے والوں نے قیمتیں بڑھا دیں۔
ذریعہ: آفس فار نیشنل سٹیٹکس
فیڈرل ریزرو بینک آف سان فرانسسکو کے ایک حالیہ مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وبائی مرض کے امدادی پیکجز ممکنہ طور پر سنہ 2021 کے آخر تک مہنگائی میں اضافے کے 3 فیصد پوائنٹس کا حصہ بنتے ہیں، یہ ایک ایسا عنصر ہے جو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ امریکی افراط زر دنیا کے باقی ممالک کے افراطِ زر کے اشاروں سے بہت زیادہ کیسے ہوا۔
آسکر جورڈا، فیڈرل ریزرو بینک آف سان فرانسسکو کے سینیئر پالیسی ایڈوائزر ہیں اور اس ریسرچ پر کام کرنے والے لوگوں میں سے ایک بھی ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اس اضافے سے بہت کچھ نتیجہ اخذ کرنا غیر مناسب ہوگا، تاہم انھوں نے کہا کہ یہ اضافہ مجموعی طور زمینی حالات کی تصویر واضح کرتا ہے۔
انھوں نے مئی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’یہ پروگرام (امدادی پیکج) ۔۔۔ صارفین کی جیبوں میں ایک ایسے وقت میں لیکویڈیٹی کا کافی اضافہ تھا جب شاید انڈسٹری طلب میں اضافے کے جواب میں رسد مہیا کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔‘ اس کیفیت نے طلب کا بڑا اضافہ پیدا کیا جسے میں طلب کے اضافے سے پیدا ہونے والا افراطِ زر کہوں گا۔ ‘
فیڈرل بینک کا سست ردعمل
امدادی پیکجز کے منظور ہونے سے پہلے ہی افراط زر میں اضافے کے خدشات کا انتباہ دیا گیا تھا، خاص طور پر ہارورڈ کے ماہر معاشیات لیری سمرز نے، جو ڈیموکریٹک پالیسی کے کافی عرصے سے مشیر ہیں، اور ساتھ ہی کچھ ریپبلکن کو بھی مشاورت دیتے رہے ہیں۔
لیکن فیڈرل ریزرو، امریکہ کے مرکزی بینک کے سربراہ، سمیت دیگر ماہرین نے استدلال کیا کہ قیمتوں میں اضافہ ’عارضی‘ ہے اور یہ جلد ختم ہو جائے گا کیونکہ کووِڈ سے متعلقہ سپلائی چین کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔
لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر اور ماہر معاشیات ریکارڈو ریس کہتے ہیں، فیڈرل ریزرو بینک – جس نے وبائی امراض کے آغاز میں معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے والی پالیسیاں شروع کی تھیں – قیمتوں میں اضافے کا حل ڈھونڈنے میں سست تھی، یہاں تک کہ امریکہ میں افراط زر میں اضافہ توقعات سے زیادہ ہونے لگا۔
’یہی (توقعات سے زیادہ اضافہ) ہے جو عارضی اضافے سے مستقل اضافے میں بدل گیا اور پھر سے فیڈ (فیڈرل ریزرو بینک) اس کا جواب دینے میں سست تھا۔‘
چونکہ امریکی گھرانوں کی معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے والے چیکوں سے قوت خرید میں اضافہ ہوا، اس لیے اجرت میں کمی کے باوجود بڑھتی ہوئی قیمتوں کو گزشتہ سال رہن سہن کے اخراجات کی قیمت کے طور پر بڑے پیمانے پر محسوس نہیں کیا گیا۔
لیکن جیسے جیسے بچت خرچ ہوتی ہے، یہ سہل ماحول بدلتا ہے، جو امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے ایک سنگین سیاسی مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔تاہم ریپبلکن موجودہ قیمتوں میں اضافے کا الزام صدر جو بائیڈن پر لگاتے ہیں۔
جو بائیڈن کی مقبولیت کافی گر گئی ہے کیونکہ افراط زر کے خدشات شدت اختیار کر گئے ہیں۔
جو بائیڈن نے ریپبلکن کے الزم کے جواب میں مہنگائی کا سارا ملبہ یوکرین کی جنگ پر ڈال دیا ہے، جس نے تیل کی سپلائی اور گندم جیسی اجناس کی برآمدات کو متاثر کیا ہے، ان کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور اب اس کی تکلیف ساری دنیا محسوس کر رہی ہے۔
یورو کے علاقے میں، قیمتیں مئی میں 8.1 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھیں، روس کے قریب کے ممالک جو اُس کے تیل اور گیس پر انحصار کرتے ہیں جیسے ایسٹونیا، وہاں قیمتوں میں 20.1 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔
او ای سی ڈی نے کہا کہ برطانیہ خوراک اور توانائی کی درآمدات پر بھی بہت زیادہ انحصار کرنے والا ملک ہے، اس میں اپریل میں افراط زر 7.8 فیصد تک بڑھ گیا، جو کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں امریکہ سے بہرحال پیچھے ہے، یہاں توانائی پر زیادہ سے زیادہ بل کی ایک حد مقرر تھی۔
برطانوی حکومت کی طرف سے صارفین کی قیمتوں کے اعداد و شمار، جو کہ او ای سی ڈی کے اعداد و شمار میں شامل ہاؤسنگ کی لاگت کے ایک پیمانہ کو چھوڑ دیتے ہیں، نے 9 فیصد کا اور بھی تیز اضافہ دکھایا۔
یہاں تک کہ جاپان، جس نے اپنی افراط زر کی شرح کو صفر سے اوپر رکھنے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے، وہاں بھی اپریل میں قیمتوں میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
او ای سی ڈی کو توقع ہے کہ اس سال افراط زر کی شرح سنہ 2023 میں واپس آنے سے پہلے، ترقی یافتہ معیشتوں میں اوسطاً 5.5 فیصد اور تنظیم کے تمام 38 ممالک کے لیے 8.5 فیصد ہو گی۔
پروفیسر ریس نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ فیڈرل ریزرو بینک، بینک آف انگلینڈ اور دیگر کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے جن میں شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے، حالات بہتر ہوں گے۔
قرض لینے کو مزید مہنگا بنا کر، اس طرح کے اقدامات گھرانوں اور کاروباروں کی مانگ پر قابو پانے میں مدد کرتے ہیں، اور قیمتوں میں اضافے کے دباؤ کو کم کرتے ہیں۔
’مجھے امید ہے – لیکن یہ کچھ زیادہ ہی غیر یقینی ہے – کہ یہ کساد بازاری کا سبب بنے بغیر ہوسکتا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ عام 2 فیصد ہدف پر واپسی کا امکان نہیں ہے۔ ’یہ بڑا سوال ہے۔‘
کاروں کی قیمتیں – امریکی افراط زر کا ایک بڑا حصہ – پچھلے سال بڑھ گئیں۔
مختصر مدت میں افراطِ زر کی شرح میں اضافہ صرف معاشی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کر سکتا ہے، خاص طور پر چھوٹے ممالک میں، جو کہ پیسے کی فراوانی میں اچانک تبدیلیوں اور شرح مبادلہ کے اتار چڑھاؤ کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں، اور یہ اکثر شرح میں اضافے سے فعال اور متحرک ہوتے ہیں۔
یہاں تک کہ بڑی بڑی معیشتوں میں سیاست دان رہن سہن کی آسمان کو چھوتی قیمتوں سے متاثر ہونے والے گھرانوں کے لیے مہنگائی کے اخراجات کو پورا کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔
برطانیہ کی حکومت نے حال ہی میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بلوں میں مدد کے لیے تیل اور گیس کی فرموں پر ونڈ فال ٹیکس کے ذریعے 15ارب پاؤنڈ کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔
یورپ کے کچھ ممالک، جیسے سپین اور پرتگال، نے گیس پر قیمتوں کی حد مقرر کی ہے۔ یہ ایک ایسا ردِعمل ہے جس کے ماہرین اقتصادیات عام طور خلاف مشورہ دیتے ہیں، کیونکہ قیمتوں پر حد لگانے سے طلب میں اضافہ ہونے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
امریکہ میں جو بائیڈن نے پیٹرول کی قیمتوں کو کم کرنے کی کوشش میں قومی ذخیرے سے بے پناہ تیل نکالا ہے۔
لیکن جیسا کہ یوکرین میں جنگ نے سپلائی کے مسائل کو پیچیدہ کیا ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے سیاستدانوں اور مرکزی بینکوں کی طاقت بھی محدود ہے۔
جورڈا کہتے ہیں کہ ’طویل مدت میں وہ توانائی کی منتقلی کی مختلف پالیسیوں اور اس نوعیت کی چیزوں میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ لیکن مختصر مدت میں واقعی بہت کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘
Comments are closed.