بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اقوام متحدہ کو ابھی تک شہزادی لطیفہ کے ’زندہ ہونے کے شواہد‘ موصول نہیں ہوئے

شہزادی لطیفہ: اقوام متحدہ کو ابھی تک شہزادی لطیفہ کے ’زندہ ہونے کے شواہد‘ موصول نہیں ہوئے

Princess Latifa bint Mohammed Al Maktoum and Sheikh Mohammed bin Rashid Al Maktoum

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک ایسے کوئی شواہد نہیں دیکھے جن سے معلوم ہو سکے کہ شہزادی لطیفہ زندہ ہیں۔

اقوام متحدہ نے تقریباً دو ہفتے قبل متحدہ عرب امارات کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس بات کا ثبوت دے کہ دبئی کے حکمراں کی بیٹی شیخہ لطیفہ زندہ ہیں۔

اس کے بعد دبئی کے شاہی خاندان نے کہا تھا کہ شہزادی لطیفہ کی ’گھر پر دیکھ بھال کی جا رہی ہے‘۔

بی بی سی کے ساتھ شیئر کی گئی خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیوز میں شیخہ لطیفہ نے اپنے والد پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے 2018 میں ان کے فرار کی کوشش کے بعد سے انھیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے ‘فری لطیفہ‘ مہم کے ڈیوڈ ہیئے سے بھی کہا ہے کہ وہ انھیں شہزادی سے متعلق اس فٹیج تک رسائی دیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی جنیوا میں متحدہ عرب امارات کے ترجمانوں سے بات ہوئی ہے لیکن جب ان سے شہزادی کے زندہ ہونے کے حوالے سے شواہد کے متعلق پوچھا گیا کہ آیا انھیں وہ موصول ہوگئے ہیں، تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

چند ہفتے قبل بی بی سی کے پینوراما پروگرام نے اس فٹیج کو دکھایا تھا اور اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد عالمی سطح پر اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے۔

دو ہفتے قبل اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر لز تھروسل نے کہا تھا کہ ‘ہم نے متحدہ عرب امارات کی حکومت سے پوچھا تھا کہ ان کی حالت اب کیسی ہے اور درخواست کی تھی کہ اس کا جواب اولین ترجیح کی بنیاد پر دیا جائے۔ ہم حالات کو مانیٹر کرتے رہیں گے۔’

شاہی خاندان کا بیان

اقوام متحدہ کی جانب سے شواہد کے مطالبے کے بعد ایک بیان میں شاہی خاندان نے کہا تھا کہ ’ان کی بحالی کا عمل جاری ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ مناسب وقت پر عوامی زندگی میں واپس آ جائیں گی۔‘

شاہی خاندان نے لندن میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’شیخہ لطیفہ کے متعلق میڈیا رپورٹس کے جواب میں ہم ان سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنھوں نے ان کی خیریت کے لیے تشویش کا اظہار کیا ہے، باوجود اس کوریج کے جو کہ یقیناً اصل صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔‘

’ان کے خاندان نے تصدیق کی ہے کہ ہر ہائینس کی گھر پر دیکھ بھال کی جا رہی ہے، ان کا خاندان اور میڈیکل پروفیشنلز ان کے لیے موجود ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

بی بی سی کو موصول ہونے والی خفیہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہزادی لطیفہ کہتی ہیں کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات سے شہزادی لطیفہ کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ میں لوگوں کی حراست کے معاملات پر بنے ورکنگ گروپ کے ترجمان کے مطابق شہزادی لطیفہ کی ویڈیوز کی جانچ پڑتال کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا جائے گا۔

برطانیہ کے خارجی اور ترقیاتی اُمور کے دفتر نے اپنے بیان میں اسے ایک تشویشناک کیس قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان کا براہ راست اس کیس سے اس کا تعلق نہیں لیکن ہر پیشرفت پر نظر رکھی جائے گی۔

1px transparent line

اس معاملے کی ابتدا کیسے ہوئی؟

دبئی کے حکمراں کی بیٹی جس نے 2018 میں ملک سے فرار ہونے کی کوشش کے بعد خفیہ ویڈیو پیغامات میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ بقول ان کے، ان کے والد نے انھیں ’یرغمال‘ بنا رکھا ہے۔

بی بی سی پینورما کے ساتھ شیئر کردہ ایک فوٹیج میں شہزادی لطیفہ المکتوم نے کہا ہے کہ جب وہ کشتی کے ذریعے فرار ہوئیں تو کمانڈوز نے انھیں نشہ آور ادویات دیں اور واپس لے آئے۔

خفیہ پیغامات اب رک گئے ہیں اور ان کے دوست اب اقوام متحدہ سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ مداخلت کرے۔

دبئی اور متحدہ عرب امارات پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ (شہزادی) اپنے خاندان کے پاس محفوظ ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق ایلچی میری رابنسن، جنھوں نے انھیں ایک ’مصیبت زدہ نوجوان عورت‘ قرار دیا تھا ، اب کہتی ہیں کہ شہزادی کے خاندان نے ان کے ساتھ بڑا دھوکہ کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی سابق ​​ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور آئرلینڈ کی سابق صدر نے لطیفہ کی موجودہ حالت اور ان کا پتہ لگانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات پر زور دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں لطیفہ کے بارے میں بہت پریشان رہوں گی۔ معاملات آگے بڑھ چکے ہیں۔ اور اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔‘

Princess Latifa and Tiina Jauhiainen on the first leg of their journey in 2018

2018 میں شہزادی نے اپنی دوست کے ساتھ مل کر فرار ہونے کی کوشش کی تھی

شہزادی لطیفہ

شہزادی لطیفہ کے ویڈیو پیغام سے لی گئی ایک تصویر

لطیفہ کے والد، شیخ محمد بن راشد المکتوم، دنیا کے امیر ترین حکمرانوں میں سے ایک ہیں، وہ دبئی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے نائب صدر بھی ہیں۔

یہ ویڈیوز کئی ماہ کے دوران ایک ایسے فون پر ریکارڈ کی گئیں جو لطیفہ کو ان کے گرفتاری اور دبئی واپس لانے کے ایک سال بعد خفیہ طور پر دیا گیا تھا۔ یہ پیغامات انھوں نے اپنے باتھ روم میں ریکارڈ کیے کیونکہ صرف وہ ہی ایسی جگہ تھی جس کا دروازہ وہ لاک کر سکتی تھیں۔

پیغامات میں انھوں نے تفصیل بتائی کہ کس طرح:

  • انھوں نے ان فوجیوں سے اس وقت لڑائی کی جب وہ انھیں کشتی سے اتار رہے تھے، انھیں لاتیں ماریں، اور ایک اماراتی کمانڈو کے بازو پر کاٹا کہ وہ چیخ اٹھا۔
  • بیہوشی کی دوا دیے جانے کے بعد انھیں پرائیویٹ جیٹ میں لے جایا گیا اور وہ اس وقت تک نہیں اٹھیں جب تک جہاز دبئی لینڈ نہیں ہو گیا۔
  • انھیں تنہا بغیر کسی طبی اور قانونی مدد تک رسائی کے، ایک ایسے وِلا میں رکھا جا رہا تھا جس کے دروازے اور کھڑکیاں بند ہیں اور اس کے باہر پولیس کا پہرا ہے۔

ٹینا جوہنین

ٹینا جوہنین نے شہزادی کے فرار میں مدد کی تھی

شیخہ لطیفہ کے پکڑے جانے اور حراست کی داستان پینوراما کو ان کی ایک قریبی دوست ٹینا جوہینن، ایک کزن مارکس ایسباری اور ایک سرگرم کارکن ڈیوڈ ہیئے نے بتائی۔ یہ سبھی افراد ’فری لطیفہ‘ مہم چلا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ انھوں نے یہ ویڈیو پیغامات جاری کرنے کا مشکل فیصلہ لطیفہ کے تحفظ پر تشویش ہونے کے بعد کیا ہے۔

یہ وہی لوگ ہیں جو دبئی کے’وِلا‘ میں لطیفہ سے رابطہ قائم کر سکے، جہاں بقول ان کے کھڑکیوں پر باڑیں لگی ہوئی ہیں اور پولیس کا پہرہ ہے۔

شیخ محمد نے ایک انتہائی کامیاب شہر بنایا ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکنان کہتے ہیں کہ وہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور عدالتی نظام خواتین کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔

شیخ محمد گھڑ دوڑ کے بہت شوقین ہیں اور رائل ایسکاٹ جیسے اہم ایونٹس میں ضرور شامل ہوتے ہیں، یہاں وہ ملکۂ الزبیتھ دوئم کے ساتھ ایک تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔

شیخ محمد برطانیہ کی ملکۂ ایلزبیتھ کے ہمراہ

شیخ محمد برطانیہ کی ملکۂ ایلزبیتھ کے ہمراہ سنہ 2019 میں

لیکن ان کو شہزادی لطیفہ اور ان کی سوتیلی ماں شہزادی حیا بنت الحسین کی وجہ سے بہت تنقید کا سامنا ہے، جو 2019 میں اپنے دو بچوں کے ساتھ بھاگ کر لندن آ گئی تھیں۔

کشتی میں فرار

لطیفہ نے، جن کی عمر اب 35 سال ہے، سب سے پہلے 16 سال کی عمر میں بھاگنے کی کوشش کی تھی، لیکن بعد میں سنہ 2011 میں فرانس کے ایک کاروباری شخص ایروے جوبیر سے رابطے کے بعد ہی فرار کو عملی جامہ پہنایا جا سکا۔ اس فرار میں ٹینا جوہینن کی بھی مدد حاصل تھی، جو پہلے ان کی مارشل آرٹ کی ایک استاد تھیں۔

اور اس کے ذریعے بین الاقوامی حدود میں کھڑی ایک امریکی جھنڈے والی کشتی تک پہنچیں جہاں جوبیر ان کے منتظر تھے۔

لیکن آٹھ دن بعد انڈیا کے ساحل کے قریب کشتی پر کمانڈو آ گئے۔ ٹینا جوہنین کہتی ہیں کہ دھوئیں کے گرینیڈوں نے انھیں اور لطیفہ کو باہر نکلنے پر مجبور کیا جو کہ کشتی کے عرشے کے نیچے ایک باتھ روم میں چھپی ہوئی تھیں اور ان پر بندوقیں تان لی گئیں۔

لطیفہ کو بعد میں دبئی لے جایا گیا اور اس کے بعد سے اب تک ان سے کوئی بات نہیں ہو سکی ہے۔

جوہنین اور کشتی کے عملے کو دو ہفتے تک دبئی میں حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ انڈیا کی حکومت نے اس کارروائی میں اپنے کردار پر کبھی بات نہیں کی ہے۔

Princess Latifa bint Mohammed Al Maktoum has lunch with Mary Robinson, a former United Nations High Commissioner for Human Rights and former president of Ireland - picture released December 2018

اقوام متحدہ کی میری رابن سن نے شہزادی لطیفہ سے دسمبر 2018 میں ملاقات کی تھی۔

لطیفہ کا ویڈیو پیغام ان کے فرار کی کوشش کے بعد جاری کیا گیا تھا

لطیفہ کا ویڈیو پیغام ان کے فرار کی کوشش کے بعد 2018 میں جاری کیا گیا تھا

شیخہ لطیفہ کا پیغام

شیخہ لطیفہ نے 2018 کے فرار کی کوشش سے پہلے ایک اور ویڈیو پیغام ریکارڈ کیا تھا جو ان کے پکڑے جانے کے بعد یو ٹیوب پر پوسٹ کیا گیا تھا۔ اس میں شیخہ کہتی ہیں ‘اگر آپ یہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے، یا تو میں مر چکی ہوں یا پھر کسی بہت ہی مشکل صورتحال سے دو چار ہوں۔’

اس پیغام کی وجہ سے ان کے بارے بین الاقوامی تشویش پیدا ہوئی اور ان کی رہائی کے مطالبات نے زور پکڑا۔ متحدہ عرب امارات پر ان کے لیے بہت دباؤ ڈالا گیا اور رابنسن کے ساتھ ان کی ایک ملاقات کا اہتمام کرنا پڑا۔

رابنسن کے ساتھ ملاقات

میری رابنسن دسمبر 2018 میں اپنی دوست شہزادی حیا کی درخواست پر دبئی آئیں جہاں لنچ پر لطیفہ بھی موجود تھیں۔

رابنسن نے پینوراما کو بتایا کہ وہ اور شہزادی حیا کو اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ لطیفہ کو بائی پولر ڈس آرڈر ہے، جو کہ انھیں نہیں تھا۔

رابنسن نے کہا کہ انھوں نے لطیفہ سے ان کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو۔

یہ بھی پڑھیئے

لنچ کے نو دن بعد، متحدہ عرب امارات کی وزارتِ خارجہ نے میری رابنسن کے ہمراہ لطیفہ کی تصاویر جاری کیں، اور کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ شہزادی محفوظ اور ٹھیک ہیں۔

رابنسن کہتی ہیں کہ ’جب تصاویر کو عام کیا گیا تو میرے ساتھ خاص طور پر چال چلی گئی۔ وہ مکمل سرپرائز تھا۔۔۔ میں بالکل دنگ رہ گئی تھی۔‘

سنہ 2019 میں دبئی کے حکمراں خاندان میں تناؤ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب انگلینڈ کے ہائی کورٹ میں شیخ کی ایک بیوی شہزادی حیا نے جو اپنے دو بچوں سمیت فرار ہو کر برطانیہ آ گئی تھیں، شیخ کے خلاف اپنے تحفظ کے لیے درخواست دی۔

گذشتہ برس ہائی کورٹ نے اپنے سلسلہ وار فیصلوں میں کہا کہ شیخ محمد نے 2002 اور 2018 میں لطیفہ کو مرضی کے خلاف واپس لے جانے اور 2000 میں ان کی بڑی بہن شہزادی شمسہ کے برطانیہ سے غیر قانونی اغوا کا حکم دیا تھا۔ ان کی بہن نے بھی بھاگنے کی کوشش کی تھی۔

عدالت نے کہا تھا کہ شیخ محمد نے ’ایسے حالات قائم کر رکھے ہیں جہاں ان دونوں نوجوان خواتین کو آزادی سے محروم رکھا گیا ہے۔‘

لطیفہ کے دوستوں کو امید تھی گذشتہ سال مارچ میں عدالت کے فیصلے کے بعد شاید کچھ فائدہ ہو، جس میں شیخ محمد کو کہا گیا تھا کہ ’انھوں نے عدالت کے سامنے پورا سچ نہیں بولا۔‘

پیغامات کو اب ریلیز کرنے کے فیصلے پر جوہنین کہتی ہیں کہ رابطہ منقطع ہونے کے بعد ’بہت زیادہ وقت گزر چکا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اب ویڈیو ریلیز کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں محسوس کرتی ہوں کہ وہ چاہتی ہیں کہ ہم ان کے لیے جنگ جاری رکھیں اور ہمت نہ ہاریں۔‘

شہزادی حیا فروری 2002 میں ہائی کورٹ جاتے ہوئے

شہزادی حیا فروری 2002 میں ہائی کورٹ جاتے ہوئے

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.