پیر 3؍صفر المظفر 1445ھ21؍اگست 2023ء

افسوس کی بات ہے صدر کے اختیارات کس نے استعمال کیے؟ شعیب شاہین

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ انہوں نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ بغیر دستخط کے واپس بھجوایا تھا، افسوس کی بات ہے صدر کے اختیارات کس نے استعمال کیے؟

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شعیب شاہین نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق بل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بعد صدر کے پاس آتا ہے، صدر کے پاس اختیار ہے بل کو پاس کردیں یا بغیر دستخط واپس بھیج دیں، بل واپس جانے کی صورت میں 10 دن بعد خود ہی وہ قانون بن جائے گا۔

شعیب شاہین نے کہا کہ صدر نے نہ دستخط کیے نہ ہی اس بل کو واپس بھجوایا، صدر پاکستان نے ٹوئٹ میں واضح کیا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ واپس بھجوایا جائے، ان کے اسٹاف نے انہیں بتایا بل واپس بھجوا دیے گئے ہیں، افسوس کی بات ہے ان کے اختیارات کس نے استعمال کیے، صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے تھے۔

پی ٹی آئی نے قومی و عدالتی سطح پر صدر مملکت کے مؤقف کی بھرپور تائید و حمایت کا اعلان کردیا۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ پہلی بات یہ کہ آرٹیکل 75 کی رو سے یہ خلاف آئین ہے، یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے اس ایکٹ کو واپس لیا جائے، ہم پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کی مشاورت سے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، یہ قانون آئین کے خلاف اور کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ پارلیمان اس وقت ربڑ اسٹیمپ بن چکی تھی، شاہد خاقان عباسی نے خود اعتراف کیا 20 سے 25 کروڑ لے کر بل پاس کروائے گئے، ملٹری کورٹس کا کیس سپریم کورٹ میں پہلے سے چل رہا ہے، اسٹاف کے ساتھ مل کر ان قوانین کو پاس کروانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، چیف جسٹس آف پاکستان کو اس پر سو موٹو لینا چاہیے، یہ ملک بےآئین ہو چکا ہے، دو صوبے بےآئین چلائے جا رہے ہیں، دو صوبوں کے 17 کروڑ عوام کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے، پاکستان میں آئین کی بالا دستی کے ساتھ مکمل طور پر کھیلا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی وکیل نے یہ بھی کہا کہ اصل سائفر وزارت خارجہ کے پاس ہوتا ہے، اس کی دوسری کاپی نہیں ہوتی، سائفر کوڈڈ شکل میں وزیراعظم، صدر اور آرمی چیف کو بھیجا جاتا ہے، کابینہ میں سائفر ڈی کلاسیفائیڈ کیا جاتا ہے، پھر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی ڈی مارش کا حکم دیتی ہے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.