افریقہ میں مہنگائی اور ماہواری: ’پیڈز خریدنے کے لیے پیسے دینے والے شخص نے مجھ سے سیکس کا مطالبہ کیا‘
افریقہ میں مہنگائی اور ماہواری: ’پیڈز خریدنے کے لیے پیسے دینے والے شخص نے مجھ سے سیکس کا مطالبہ کیا‘
گھانا اور دیگر ممالک میں تبدیلی کے لیے خواتین احتجاج کر رہی ہیں
- مصنف, ایستھر اوگولا، جیم او ریلی اور فیور نونو
- عہدہ, بی بی سی نیوز، نیروبی، لندن اور اکرا
بی بی سی کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ گھانا میں کم از کم اجرت حاصل کرنے والی خواتین کو سینیٹری پیڈز پر ہر سات ڈالر میں سے ایک ڈالر خرچ کرنا پڑتا ہے۔
بی بی سی نے افریقہ کے نو ممالک کا سروے کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ماہواری کی مصنوعات کتنی سستی ہیں۔ ہم نے کم از کم اجرت کا سب سے سستے سینیٹری پیڈ کی مقامی قیمت سے موازنہ کیا جس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بہت سی خواتین کی پہنچ سے باہر ہیں۔
اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گھانا وہ ملک ہے جہاں ماہواری کی مصنوعات سب سے مہنگی ہیں۔ پورے افریقہ میں خواتین ’ماہواری غربت‘ کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ سماجی کارکن اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گھانا سے تعلق رکھنے والی 22 سال کی جوائس ماہواری کے دوران اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔
وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں ’مدد کے لیے موجود واحد شخص مجھے پیسے دینے سے پہلے مجھ سے جنسی تعلقات چاہتا ہے۔ مجھے یہ کرنا ہے کیونکہ مجھے مہینے کے لیے پیڈز کی ضرورت ہے۔‘
بی بی سی نے جن چھ ممالک پر تحقیق کی وہاں کم از کم اجرت کمانے والی خواتین کو آٹھ پیڈز پر مشتمل سینیٹری تولیے کے دو پیکٹ خریدنے کے لیے ان پر اپنی تنخواہ کا 3 سے 13 فیصد حصہ لگانا پڑتا ہے۔
جوائس اپنی فیملی فرینڈ کے پاس رہتی ہیں۔ وہ ایک گروسری سٹور میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کا واحد زریعہ آمدن وہاں سے ملنے والی ٹپس ہیں۔
سینیٹری پیڈز کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے خواتین نے جون 2023 میں گھانا کی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کیا۔
گھانا میں جون کے مہینے میں پیریڈز ٹیکس کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا
جوائس نے پیڈز کی جگہ ٹوائلٹ پیپر کو عارضی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن یہ طریقہ غیر پائیدار ثابت ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں کوئی اور راستہ نہیں ملا لہذا انھوں نے پیڈز کے پیسوں کے لیے جنسی مطالبات پورے کرنے شروع کر دیے۔
جوائس ان کئی خواتین میں سے ایک ہیں جو اس مسئلے کا سامنا کر رہی ہیں۔
گھانا میں ماہانہ آمدنی کے لحاظ سے سب سے مہنگی ماہواری مصنوعات پائی گئیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق گھانا میں ایک عورت ماہانہ 26 ڈالر کماتی ہے۔ اسے ایک سینیٹری تولیے کے دو پیکٹ، جن میں آٹھ پیڈ ہوتے ہیں، خریدنے کے لیے تین ڈالر خرچ کرنا ہوں گے یا ہر سات ڈالر میں سے ایک سینیٹری پیڈز پر خرچ کرنا ہوگا۔
اس کے مقابلے میں امریکہ یا برطانیہ میں خواتین کو سینیٹری مصنوعات پر کافی کم خرچ کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں کم از کم اجرت کمانے والوں کو 12 سو ڈالر میں سے تین ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
گھانا میں سینٹر فار ڈیموکریٹک ڈویلپمنٹ (سی ڈی ڈی) کی ایک محقق فرانسسکا سرپونگ اووسو کا کہنا ہے کہ بہت سی کمزور لڑکیاں اور خواتین کپڑے کا استعمال کر رہی ہیں، جن میں وہ حیض کے دوران پلاسٹک کی چادر، سیمنٹ پیپر کے تھیلوں اور خشک کیلوں کے تنے ڈال دیتی ہیں کیونکہ وہ ڈسپوزیبل سینیٹری پیڈز نہیں خرید سکتیں۔
اور مسئلہ گھانا سے بڑھ کر عالمی سطح پر پہنچ چکا ہے اور اس کے اثرات حیران کن ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق دنیا بھر میں 500 ملین خواتین کو ماہواری سے متعلق مصنوعات تک رسائی نہیں۔
ان کے پاس ماہواری کے دوران حفظان صحت کے انتظام جیسے صاف پانی اور بیت الخلا جیسی مناسب سہولیات بھی میسر نہیں۔
ٹیکس کا اس سے کیا تعلق ہے؟
ماہواری سے متعلق صحت پر کام کرنے والے بہت سے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’ٹیمپون ٹیکس‘ کو ہٹانے سے خواتین کو سینیٹری مصنوعات تک رسائی میں مدد ملے گی۔
ٹیمپون ٹیکس سے مراد پیریڈز کی مصنوعات جیسے پیڈز، ماہواری کے کپس وغیرہ پر سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکس شامل ہو سکتے ہیں۔
اس مہم چلانے والوں کا مزید کہنا ہے کہ حکومتیں اب بھی ان مصنوعات کو اشیائے خوردونوش یا بنیادی ضروریات کے بجائے لگژری آئٹمز کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یعنی ان پر عائد ٹیکس ’لگژری ٹیکس‘ کے مترادف ہے جو کہ غیر ضروری سمجھی جانے والی اشیا پر لگایا جاتا ہے۔
یہ ٹیکس عام طور پر بنیادی اشیا پر عائد ٹیکس سے زیادہ ہوتے ہیں۔
سنہ 2004 میں کینیا دنیا کا پہلا ملک بنا جس نے پیریڈز کی مصنوعات سے ٹیکس ہٹایا۔ سنہ 2016 میں کینیا نے سینیٹری پیڈز کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے خام مال پر سے بھی ٹیکس ہٹا دیا۔ نتیجتاً کینیا میں پیڈز کی قیمت گر گئی۔
سنہ 2023 کینیا میں پیریڈز مصنوعات کی ریٹیل پرائس سب سے کم تھی۔ یہ ہمارے مطالعے میں سب سے زیادہ سستے پیڈز والا ملک نظر آیا۔
اس امید کے ساتھ کے قیمتیں مزید کم ہو جائیں گی، خواتین سیاستدان اور مہم چلانے والے کارکن ٹیکس میں مزید چھوٹ دینے پر زور دے رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں ماہواری سے متعلق حفظان صحت کی ایک کارکن نوکوزولا ندوانڈوے نے سنہ 2014 سے پیریڈز مصنوعات پر وی اے ٹی ختم کروانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اپریل 2019 میں انھیں ’بڑی فتح‘ حاصل ہوئی جب حکومت نے سینیٹری پیڈز پر 15 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کر دیا اور سرکاری سکولوں میں مفت سینیٹری تولیے دینے کا اعلان کیا۔
نوکوزولا ندوانڈوے برسوں سے جنوبی افریقہ میں ٹیمپون ٹیکس کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے
وہ ممالک جو سینیٹری تولیوں پر ٹیکس نہیں لگاتے اور مینوفیکچررز کو استعمال شدہ مواد پر ٹیکس کا دعوی کرنے کی اجازت دیتے ہیں، وہاں مجموعی طور پر کم قیمت والی مصنوعات ملتی ہیں۔
لیکن کیا ٹیکس میں چھوٹ خواتین اور لڑکیوں کے پیڈز تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے؟
2019 میں تنزانیہ کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ سینیٹری مصنوعات پر وی اے ٹی دوبارہ متعارف کروا رہی ہے جسے ختم کیے صرف ایک سال گزرا تھا۔ حکومت نے یہ اقدام صارفین کی شکایات کے بعد اٹھایا جن کا کہنا تھا کہ دکانوں اور بازاروں میں قیمتیں نہیں گریں۔
افریقہ اور پوری دنیا میں ماہواری کی مصنوعات کی زیادہ قیمت اور دیہی اور دور دراز علاقوں میں ان کی عدم دستیابی کی وجہ سے لاکھوں خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔
اگرچہ دنیا بھر میں کتنی لڑکیاں ماہواری کے دوران سکول سے چھٹیاں لیتی ہیں لیکن اس بارے میں کوئی ایک تحقیق نہیں تاہم مختلف خطوں اور ممالک میں کیے گئے مطالعوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سال ہزاروں لڑکیاں ماہواری پر ہونے کی وجہ سے کئی دن تک تعلیم سے محروم رہتی ہیں۔
مختلف افریقی ممالک میں پیڈ ڈرائیوز ہو رہی ہیں
کینیا میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ماہواری سے گزرنے والی 95 فیصد لڑکیاں مہینے میں ایک سے تین دن کے درمیان سکول نہیں جا سکیں جبکہ 70 فیصد کے گریڈز پر منفی اثر پڑا جبکہ 50 فیصد سے زیادہ نے کہا کہ وہ حیض کی وجہ سے سکول میں پیچھے رہ گئی ہیں۔
’جیگنیٹ ایتھوپیا‘ خواتین اور لڑکیوں کی ترقی کے لیے ایک تحریک ہے جو ٹیکس میں چھوٹ کے لیے زور دے رہی ہے اور ایتھوپیا میں لڑکیوں کو دوبارہ قابل استعمال پیڈ کٹس تقسیم کر رہی ہے۔
اس تحریک کی بانی ماراکی ٹیسفائی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں ایسے اعداد و شمار ملے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ایتھوپیا میں لڑکیاں تعلیمی سال کے کیلنڈر میں 100 دن تک سکول نہیں جاتیں اور جب وہ سکول چھوڑتی ہیں تو ہم نے دیکھا کہ بہت سی چیزیں رونما ہوتی ہیں۔‘
’وہ پیچھے رہ جائیں گی، ایک کلاس کو دہرائیں گی کیونکہ ان کے پاس کوئی اضافی کلاس نہیں ہوتی، سکول چھوڑ دیں گیں۔ شادی کریں گی یا گھریلو ملازمین کے طور پر کام کریں گی، ان کی تعلیم کو آگے بڑھانے کے امکان بہت کم ہوتے ہیں۔‘
یہ صرف خواتین کا مسئلہ نہیں
ابراہیم فالی کی عمر تقریباً 10 سال تھی جب انھوں نے اپنی بہن کے لیے پیڈ خریدنا شروع کیے تھے۔
نائیجیریا کے شہر لاگوس میں لڑکیوں کے ارد گرد پرورش پانے والے ابراہیم یہ سوچتے تھے کہ یہ ہر نوجوان مرد کے لیے عام سی بات ہے۔
وہ کہتے ہیں ’ہم ایک عام گھرانا تھے اور سینیٹری پیڈز ہماری قوت خرید میں تھے۔ اس لیے مجھے لگتا تھا کہ یہ دوسرے خاندانوں کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں تو میں حیران ہو گیا۔‘
ابراہیم فالی لڑکوں اور لڑکیوں کو ماہواری کے متعلق تعلیم دیتے ہیں
اب 26 سال کی عمر میں ابراہیم فالی پبلک ہیلتھ پریکٹیشنر ہیں اور اپنی غیر سرکاری تنظیم ’پیڈ بینک‘ کے ذریعے لڑکیوں اور لڑکوں کو ماہواری کی تعلیم دیتے ہیں۔
ان کا یہ مقصد بھی ہے وہ ’پیریڈز غربت‘ کو روکیں اور لڑکوں کو یہ شعور دیں کہ وہ لڑکیوں کو شرمندہ کرنا چھوڑ دیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’نائیجیریا میں ہمارے پاس یہ رواج ہے کہ مردوں کو ماہواری کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں۔ ہم مردوں کو اس عمل کے گزارتے تاکہ وہ سمجھ سکیں اور خواتین کی دیکھ بھال بھی کر سکیں۔‘
جنوبی افریقی مہم جو نوکوزولا، اینڈومیٹرائیوسس کا شکار ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچہ دانی کی پرت کی طرح ٹشو بڑھ کر اس کے باہر آ جاتے ہیں اور یہ حیض کو بہت تکلیف بنا دیتا ہے۔ وہ اس دوران بہت مشکل سے کام کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میں ایک ایسی ٹیم میں تھی جس میں اکثریت مردوں کی تھی اور مجھے یہ کہتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی تھی کہ میں بیمار ہوں۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوتی تھی اور اس سے ترقی کے مواقع پر ہونے والے اثرات کے بارے میں فکر مند تھی۔‘
’میں نے اسی چیز سے گزرنے والی لاکھوں خواتین کے بارے میں سوچا۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے محسوس ہوا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پیریڈز کے متعلق بیانیہ اور شرمندگی کو ختم کیا جائے۔‘
تو پیریڈز انصاف کیسا نظر آتا ہے؟
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے ادارے نے ’پیریڈز غربت‘ کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ’مشکلات جن کا کئی کم آمدن والی خواتین اور لڑکیوں کو ماہواری کی مصنوعات خریدنے کی کوشش کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ماہواری کی مجموعی حفظان صحت کا مطلب ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو صاف پانی اور صابن، صاف ستھرے بیت الخلاء اور لیٹرین تک رسائی حاصل ہو اور ان سہولتوں تک بغیر کسی بدنامی اور شرمندگی کے رسائی حاصل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ماہواری کی تعلیم بھی ہو۔
بی بی سی کی تحقیق پر اپنا موقف دیتے ہوئے نوکوزولا کہتی ہیں ’ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ عورت کو ایک روٹی، اپنے خاندان اور ماہواری کی مصنوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، یہ واقعی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’یہ ایک قدرتی، حیاتیاتی عمل ہے جو ہر مہینے آتا ہے۔ اس لیے آپ کو اپنے خاندان کی بقا کے لیے اپنے جسم پر اپنی خود مختاری کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ ماہواری کی مصنوعات مفت ہونی چاہئیں۔‘
نوکوزولا اب جنوبی افریقہ میں ماہواری سے متعلق صحت کے حقوق کا بل منظور کروانے کے لیے کام کر رہی ہیں تاکہ پیریڈز کی مصنوعات کو انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جا سکے اور جوائس جیسی خواتین کو انھیں حاصل کرنے کے لیے مایوس کن اقدامات کا سہارا نہ لینا پڑے۔
جوائس کہتی ہیں ’ہم تکلیف میں ہیں، میں اپنی حکومت سے التجا کرنا چاہتی ہوں کہ وہ پیڈ پر سے ٹیکس ہٹائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم صرف ماہواری کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں۔ میں صرف ماہواری کے لیے کیوں بھیک مانگوں یا بھوکا رہوں؟ میرے خیال میں یہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔‘
Comments are closed.