پاکستان کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر افتخار احمد نے کہا ہے کہ مجھے لوگوں نے چاچا کہنا شروع کیا اور اسے مشہور کیا، لوگ جو بھی کہتے ہیں میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔
بنگلادیش پریمیئر لیگ میں شریک افتخار احمد نے ایک کرکٹ ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بابر اعظم نے ایک مرتبہ میرے کہنے پر فیلڈنگ تبدیل کی اور اس پر وکٹ مل گئی، بابر اعظم نے کہا کہ آپ چاچائے کرکٹ ہو، یہ بات اسٹمپ مائیک میں سب نے سنی۔
افتخار احمد نے کہا کہ جب میچ ختم ہوا تو ہر طرف چاچا کرکٹ کی آواز آرہی تھی، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے، مجھے میرے دوست نے بتایا کہ مائیک پر سب نے سنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرکٹ کا عمر سے تعلق نہیں، پرفارمنس کی اہمیت ہوتی ہے، بھارت اور آسٹریلیا جیسی ٹیموں میں بھی 30 برس سے زائد کھلاڑیوں کو کھلایا جاتا ہے۔
افتخار احمد نے کہا کہ 30 برس کی عمر کے بعد کھلاڑی دماغی طور پر مضبوط ہوتا ہے اور اچھا کھیلتا ہے، میرے کانوں میں یہ بات پڑتی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو کھلایا جائے، مجھے یہ برا لگتا ہے میں بھی آخر انسان ہوں۔
پاکستانی بیٹر نے کہا کہ مصباح الحق، یونس خان اور شعیب ملک جیسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے 30 برس سے اوپر ہونے کے بعد بہت کچھ حاصل کیا، مجھے نہیں پتا لوگوں کو کیسے خوش کرنا ہے اور میں لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔
افتخار احمد نے کہا کہ مجھے بیٹنگ کے لیے نیچے بھیجا جاتا رہا، میں نے مینجمنٹ سے بات بھی کی تھی، ڈومیسٹک میں مستقل چوتھے نمبر پر کھیلتا ہوں۔
افتخار احمد نے کہا کہ ون ڈے کرکٹ میں مجھے کھیلنے کے لیے زیادہ تر بہت کم اوورز ملتے ہیں لیکن جب بھی زیادہ موقع ملا میں نے ٹیم کے لیے رنز کیے۔
انہوں نے کہا کہ 2016 کے بعد مجھے ٹیسٹ میں 2020 اور پھر 2022 میں موقع ملا، میں نے 20 یا 22 رنز کیے اور پھر مجھے ڈراپ کردیا گیا جس پر دکھ ہوتا ہے۔
افتخار احمد نے کہا کہ 2 ٹیسٹ میں ٹیم کے ساتھ ہوتا ہوں اور پھر اسکواڈ سے نکال دیا جاتا ہے، یہ سب چھوٹی چیزیں ہیں لیکن تکلیف دہ ہیں۔
پاکستانی بیٹر نے کہا کہ بی پی ایل میں بہت لطف اندوز ہو رہا ہوں، پہلی ٹی ٹوئنٹی سنچری میرے کیریئر کا ایک بڑا موقع ہے۔
واضح رہے کہ افتخار احمد کو اکثر مداح سوشل میڈیا اور اسٹیڈیم میں چاچا کرکٹ کہہ کر پکارتے ہیں۔
Comments are closed.