’اس دن مصر میں انسانیت کا قتل ہوا‘
آج سے دس سال قبل معزول کیے گئے صدر مرسی کے حامیوں کے احتجاجی دھرنے کے خلاف مصری فورسز کا کریک ڈاؤن اپنی نوعیت کے خونی ترین واقعات میں سے ایک تھا اور یہ مصر کے تاریک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
مصری فورسز نے اسلام پسند صدر مرسی کے حامیوں کے احتجاج کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کیا تھا، جس میں سیکڑوں افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے ہلاک ہوئے۔
بی بی سی عربی کی سیلی نبیل نے اس بارے میں قاہرہ سے رپورٹ کیا ہے کہ اس دن کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔
’کاش میں آج زندہ نہ ہوتا۔‘ یہ کہنا ہے عامر کا جو اس دن دارالحکومت کے مشرقی علاقے میں واقع رابع العدویہ سکوائر میں تقریباً 50 دنوں تک جاری رہنے والے دھرنے میں شامل تھے۔
عامر کی عمر اس وقت 20 برس تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے بلڈوزروں کو خیموں کو روندتے اور ان کے راستے میں جو کچھ آیا اسے کچلتے دیکھا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس دن مصر میں انسانیت کا قتل ہوا تھا۔‘
عامر کو رابع احتجاج کے چند ماہ بعد دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور نقص امن کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انھوں نے سنہ 2018 میں مصر سے نکلنے اور برطانیہ میں آ کر مقیم ہونے سے قبل تقریباً پانچ سال جیل میں گزارے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے دھرنے میں اس لیے حصہ لیا تھا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ ان کا ملک فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔
اس دن رابع اور نہدہ سکوائر پر دھرنوں کو پرتشدد انداز میں منتشر کرنا نہ صرف مصر کی حالیہ تاریخ میں بے مثال واقعات میں سے تھے بلکہ یہ گیم چینجرز بھی تھے جنھوں نے عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے مستقبل کو نئی شکل دی۔
جب سنہ 2012 میں اسلامی گروہ اخوان المسلمون کی ایک سرکردہ شخصیت محمد مرسی مصر کے صدر کے لیے منتخب ہوئے، تو وہ جمہوری عمل کے ذریعے صدارتی محل تک پہنچنے والے پہلے سویلین تھے۔ یہ ان کے حامیوں کے لیے ایک غیر معمولی فتح تھی۔
اگرچہ ایک سال بعد مرسی کے مخالف مظاہرین ان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ انھوں نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ اسلام پسند ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور تمام مصریوں کے صدر بننے میں ناکام رہے ہیں۔ فوج جو کہ پچھلے 70 سالوں میں ملک میں ایک غالب سیاسی کھلاڑی رہی ہے یہ سب دیکھ رہی تھی۔
مظاہروں کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع، عبدالفتاح السیسی نے، محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹا دیا اور مختصر مدت کے سویلین حکومت کا اچانک خاتمہ کر دیا۔ عبدالفتح السیسی خود ایک سال بعد صدر منتخب ہوئے تھے اور تب سے وہ اس عہدے پر فائز ہیں۔
’ہر طرف لاشیں ہی لاشیں‘
مصری حکام نے متعدد بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں سے با رہا مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ’غیر قانونی‘ دھرنے کو ختم کریں، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔ ریاست نے رابع العدویہ سکوائر کو ایک باغی علاقے کے طور پر دیکھا جس سے نمٹنے کی ضرورت تھی۔
عامر کے فہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مظاہرین پر آتشیں اسلحے کا استعمال کیا جائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ پولیس فورسز واٹر کینن یا زیادہ سے زیادہ آنسو گیس کے شیل مارنے جیسے نرم ہتھکنڈوں کا سہارا لیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے اتنی بے گناہ جانیں کیسے ضائع ہوئیں۔
وہ اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں، ہم انھیں گن نہیں پا رہے تھے، ہم ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کر پا رہے تھے۔‘
اس دن کے متعلق بتاتے ہوئے ان کی آواز بھر جاتی ہے۔
’خواتین اور بچوں سمیت شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہاتھ اٹھا کر دھرنا چھوڑ کر جا رہی تھی، جب سنائپرز نے انھیں گولیوں کا نشانہ بنایا۔ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔‘
حکام کا کہنا تھا کہ انھوں نے فوج بھیجنے سے پہلے لوگوں کو دھرنے سے جانے کے لیے محفوظ راستہ دیا تھا۔ لیکن اس واقعے کے ایک سال بعد شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں، ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے ’دن کے بیشتر حصے میں مظاہرین کا محاصرہ کیا، چوک کے پانچ مرکزی داخلی راستوں میں سے ہر ایک سے حملہ کیا اور دن کے اختتام تک کوئی محفوظ راستہ نہیں چھوڑا تھا۔‘
مصر کا کہنا ہے کہ اس دن 600 سے زائد افراد مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ تاہم اخوان المسلمون کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی۔ مصر میں اب اخوان المسلمون پر پابندی عائد ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ کم از کم 817 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
زیادہ تر ہلاکتیں اخوان المسلمون کے کیمپ سے ہوئیں تاہم کچھ پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ یہ احتجاجی دھرنے منتشر ہونے کے بعد بھی کئی دن تک ملک میں تشدد جاری رہا۔
’زندہ شہید‘
ان میں سے ایک پولیس افسر کی ماں آج بھی اپنے بیٹے کے کھو جانے کا درد محسوس کر رہی ہیں۔
مصطفیٰ کی والدہ وفا، کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا 14 اگست کی ہنگامہ آرائی سے صحیح سلامت نکل آیا تھا۔ لیکن دو دن بعد، جب وہ جنوبی قاہرہ میں ایک پولیس سٹیشن کی طرف جا رہا تھا او اسے تین گولیاں ماری گئیں۔
مصطفیٰ 20 سال کے تھے جب 2016 میں تین سال کومہ میں رہنے کے بعد ان کی وفات ہوئی۔ اس دوران وفا نے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں کسی دن بھی ان کا بستر نہیں چھوڑا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ اسے جانتے ہیں اور اسے زندہ شہید کہتے تھے۔‘
وہ اپنے بڑے اور سب سے عزیز بیٹے کے متعلق مجھ سے بات کرتے ہوئے اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں۔
’ہم تباہ ہو چکے ہیں، اس کے بنا سب کچھ بد ذائقہ ہے، اب ہم زندہ نہیں ہیں۔‘
ان کے گھر کی ایک بھی دیوار ایسی نہیں جس پر مصطفیٰ کی تصویر نہ لٹکی ہو۔ وفا اپنے سب سے بڑے پوتے میں کچھ سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس کا نام اس کے مرحوم تایا کے نام پر رکھا گیا ہے۔
مصطفیٰ کی موت کے بعد سے ان کے والدین کی طبعیت خراب رہتی ہے اور وہ اس کا ذمہ دار مصطفیٰ کے موت کے غم کو قرار دیتے ہیں۔
جب میں نے وفا سے اخوان المسلمون کے اس دعوے کے بارے میں پوچھا کہ احتجاج پرامن تھے، تو وہ دو ٹوک جواب دیتے ہوئے غصے سے کہتی ہیں کہ ’وہ جھوٹوں کا ٹولہ ہیں۔‘
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ رابع میں قتل ’نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی تھی بلکہ ممکنہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔‘
مصری حکام نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رابع دھرنے کے شرکا مسلح تھے اور امن و امان کے لیے سنگین خطرہ تھے۔
عامر کہتے ہیں کہ ’آج تک جب میں پولیس کے سائرن یا ہیلی کاپٹر کے منڈلانے کی آواز سنتا ہوں تو میں مشکل سے سانس لے سکتا ہوں۔ مجھے فوری طور پر وہ سب یاد آ جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کا پورا خاندان سنہ 2013 سے صدمے سے گزر رہا ہے۔ ان کا چھوٹا بھائی، جس کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہے اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہے اور ان پر دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے کا الزام ہے۔
جبکہ ان کے مرحوم والد کو بھی احتجاج کرنے کے الزام میں غیر قانونی طور پر چند سال کے لیے قید کر دیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر مجھے مصر واپسی کا موقع بھی ملے، تو وہاں وہ زندگی ختم ہو چکی ہے جو کبھی میں جیا کرتا تھا۔‘
Comments are closed.