’اس تصویر میں زیادہ تر بچے اب زندہ نہیں ہیں‘: غزہ پر حملوں میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ کیوں مارے جا رہے ہیں؟
’اس تصویر میں زیادہ تر بچے اب زندہ نہیں ہیں‘: غزہ پر حملوں میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ کیوں مارے جا رہے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہAHMED AL-NAOUQ
احمد النوق نے یہ سیلفی چار سال پہلے لی تھی، تصویر میں زیادہ تر بچے اب اس دنیا میں نہیں ہیں
- مصنف, سٹیفنی ہیگارٹی
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
غزہ کی گنجان آباد گلیوں میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے پورے پورے خاندان صفحہِ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ فلسطینی رشتہ داروں کی بڑی تعداد اکٹھے گھروں میں رہتے ہیں جن میں وہ کئی نسلوں سے ایسے رہ رہے ہیں۔ برطانیہ میں رہنے والے تین فلسطینیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک ہی حملے میں ان کے 20 سے زیادہ رشتہ دار ہلاک ہو گئے ہیں اور متعدد ابھی بھی ملبے کے تلے پھنسے ہوئے ہیں۔
چار سال پہلے ایک معمول کا جمعے کا دن تھا جب احمد النوق نے اپنے گھر والوں کے ساتھ یہ سیلفی بنائی تھی۔ لیکن انھیں یہ دن یاد ہے۔ ان کے والد کے گھر کے ساتھ زیتون کے درختوں کے سائے میں ان کے بھائی، بہنییں اور ان کے بچے کھانے، کھیلنے اور گپ شپ کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
کھیل کود سے وقفہ لے کر جب بچے کھانا کھانے کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہوئے تو احمد نے ان سب کی تصویر لی۔ اب اس تصویر میں موجود بیشتر بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
22 اکتوبر کو ان کے گھر ایک فضائی حملہ ہوا جسے کے نتیجے میں وہ سب مارے گئے۔ کل ملا کر 21 لوگ مارے گئے جب میں ان کے والد سمیت تین بہنیں، دو بھائی اور 14 بچے شامل ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری میں اب تک 11 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی نے حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد اس بمباری کا آغاز کیا جس میں ان کے مطابق 1200 کے قریب لوگ ہلاک جبکہ 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
احمد کی اس تصویر میں موجود سات بچے اب اس دنیا میں نہیں ہیں کچھ تو اس دن وہاں موجود نہیں تھے اور کچھ تو تصویر لینے کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
کئی فلسطینیوں کی طرح احمد کے بھائیوں نے اپنے کنبوں کے گھر اپنے والد کے گھر کے اوپر بنائے۔ یہ رواج ہے جس کی وجہ سے ایک ہی حملے میں متعدد نسلیں ماری جا رہی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہAL-NAOUQ FAMILY
احمد ایک این جی او کے ساتھ کام کرنے کے لیے لندن چلے گئے، انھوں نے آخری بار 2019 میں اپنے بھتیجے عبداللہ سمیت خاندان کے باقی افراد کو دیکھا تھا
احمد کی بہن آیا کا اپنا اپارٹمنٹ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا لہٰذا وہ اپنے بچوں سمیت اپنے والد اور بھائیوں کے گھر آگئی تھیں۔ ان کی باقی بہنیں والیٰ اور عالیٰ بھی اپنے بچوں سمیت وہاں موجود تھیں۔
ان کا گھر غزہ کے مرکز میں دیر البلاح کے محلے میں تھا، اس علاقے کو پہلے کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ انھیں لگا یہ محفوظ جگہ ہے۔
احمد کہتے ہیں ’مجھے لگا ان کے لیے مشکل وقت ہے لیکن انھیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔‘
احمد چار سال پہلے ایک این جی او میں ملازمت کرنے برطانیہ آئے اور اس وقت سے وہ واپس گھر نہیں گئے۔ آخری دفعہ انھوں نے تمام بچوں کو اکٹھا ویڈیو کال پر دیکھا تھا۔ انھیں اس دفعہ بونس ملا تھا اور انھوں نے پہلے کی طرح اس بار بھی اپنے بھانجے، بھتیجے، بھانجیوں اور بھتیجیوں کو کھانا کھلانے کا وعدہ کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان سب نے کہا وہ گیسٹ شیلے کو رنٹ پر لے کر ساحل پر جا کر اکھٹے کھانا پینا اور موج کرنا چاہیے ہیں۔‘ تو انھوں نے ان کے لیے بکنگ کی اور انھیں ڈنر اور سنیکس خرید کر دیے۔
،تصویر کا ذریعہAL NAOUQ FAMILY
عبداللہ جب مارا گئے تو وہ چھ سال کے تھے
بچوں نے انھیں اس دن ساحل سے فون کیا اور وہ ان سے فون پر بات کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔
ان میں سے اتنے اب اس دنیا میں نہیں رہے کہ احمد ان کے نام اور عمریں یاد کرتے ہوئے لڑکھڑاتے ہیں۔ اسلم ان 13 سال کا تھا اور احمد کا سب سے بڑا بھانجا تھا اور وہ اسے سب سے زیادہ جانتے تھے۔ اسلم جب پیدا ہوئے تھے تو احمد اس وقت ایک نئے جوان تھے۔ ان کی والدہ چھونے اسلم کا خیال رکھتی تھیں جب ان کی بہن کام پر گئی ہوتی تھیں۔ لہٰذا احمد بھی اس کو کھلاتے اور اس کے کپڑے تبدیل کرتے تھے۔
جیسے جیسے اسلم بڑا ہوتا گیا وہ کہتا تھا کہ وہ اپنے ماموں جیسا بننا چاہتا تھا۔ احمد کہتے ہیں وہ اپنی کلاس میں اوّل آتا تھا اور وہ اپنی انگریزی پر بہت محنت کر رہا تھا تاکہ وہ بھی برطانیہ میں آ سکے۔
اسلم اپنی بہنوں کے ساتھ مارا گیا تھا۔ دیما دس سال کی تھی، تعالیٰ نو سال کی، نور پانچ اور ناسمہ دو سال کی تھی۔ ہلاک ہونے والوں میں اسلم کے کزنز بھی شامل تھے جن میں رغاد 13 اور بکر 11 سال کے تھے جبکہ لڑکیوں میں اسلم، سارہ دونوں نو سال کی تھیں، میمد اور باسیمہ آٹھ سال، عبدللہ اور تمیم چھ سال کے تھے۔
حملے کے بعد احمد نے ہر بچے کی تصویر آن لائن لگائی تاکہ پوری دنیا کو یہ دکھائیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ان میں تین سال کا عمر بھی تھا۔ وہ احمد کے بھائی محمد اور اپنی ماہ شیما کے ساتھ ان کے بستر میں تھا جب ان پر بم گرا۔
احمد کو ان کی بچ جانے والی بہن کا فون آیا جس نے انھیں بتایا کہ محمد ہلاک ہو گیا ہے لیکن معجزاتی طور پر شیما اور اس کا بچہ بچ گئے ہیں۔
احمد کہتے ہیں ’وہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔‘
اس کے علاوہ ملبے سے صرف 11 سال کی ملک ہی زندہ ملیں۔ وہ بہت بری طرح زخمی ہو چکی تھیں اور ان کے آدھے جسم پر جلنے کے نشان تھے۔
جب میں احمد سے ملی تو اس نے ملک کی ہسپتال میں سے لی گئی تصویر مجھے دکھائی اس کی پورا جسم پٹیوں سے لپٹا ہوا تھا۔ پہلی نظر میں مجھے لگا کہ یہ ایک لڑکے کی تصویر ہے کیونکہ اس کے بال چھوٹے تھے۔ احمد نے کہا وہ آگ میں جل گئے ہوں گے۔
،تصویر کا ذریعہAL-NAOUQ FAMILY
11 سال کی ملاک کو ملبے سے زندہ نکالا گیا لیکن وہ بری طرح سے زخمی تھیں جبکہ ان کے بھائی 9 سالہ محمد اور 6 سالہ تمیم دھماکے میں مارے گئے تھے
ملک کے والد گھر پر نہیں تھے جب حملہ ہوا تھا لہذا وہ زندہ ہیں لیکن ان کی بیوی اور دو بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب احمد نے میسج کر کے پوچھا کہ وہ کیسے ہیں تو انھوں نے جواب دیا ’زندہ لاش۔‘
بم حملے کے ایک ہفتے بعد جب اسرائیل نے اپنی کارروائی میں تیزی لائی تو غزہ میں رابطے کے تمام ذرائع تقریباً مکمل بند ہو گئے تھے اور احمد کسی سے رابطہ نہیں کر سک رہے تھے۔ دو دن بعد جب رابطے بحال ہوئے تو انھیں پتا چلا کہ ملک مر چکی ہے۔
جب طبی سحولیات اور ادویات ختم ہو رہی تھیں اور ملک کو انتہائی نگہداشت کیس کی وجہ سے آئی سی یو یونٹ سے ہٹایا جانا پڑا۔ وہ بہت درد میں تھی۔
ملک کے والد نے احمد کو بتایا کہ اپنے سب سے بڑی بچی اور تین میں سے واحد بچ جانے والی اولاد کو آہستہ سے مرتے دیکھتے ہوئے ’میں ہر روز سو دفعہ مرتا تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہALNAJJAR FAMILY
یوسف ایک ہی خاندان کے 20 افراد میں شامل تھا جو ایک ہی حملے میں مارے گئے۔ اس کی عمر چار سال تھی۔
رابطے منقطع ہونے سے پہلے احمد کو پتا چلا کے ان کے چچا کے گھر پر بھی بمباری ہوئی ہے لیکن انھیں ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ اس واقعے میں کون ہلاک ہوا ہے۔ منگل کو انھیں پتا چلا کہ ان کی دو قریبی دوست مائسارا اور لاؤرا کے گھر پر حملے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی متعدد نسلیں ہلاک ہوئیں۔ لاؤرا تو بچ گئیں لیکن مائسارا ابھی بھی ملبے کے تلے گمشدہ ہیں۔
ہم نے برطانیہ میں تین لوگوں سے بات کی اور ان میں سے ہر کسی کے 20 سے زیادہ رشتہ دار ہلاک ہوئے۔
درویش المناما نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاندان کے 44 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان میں ان کی بھتیجی سلما اور ان کے خاوند، ان کے چار بڑی عمر کے بچے اور ان میں سے ایک کا بچہ جو ایک سال کا بھی نہیں تھا شامل ہیں۔
وٹس ایپ پر ملنے والی ایک لسٹ سے درویش کو اپنے خاندان کی موت کے بارے میں معلوم ہوا۔ کچھ تفصیلات بتانے کے بعد وہ مزید بات نہیں کر سکے۔
یارا شریف لندن میں ایک آرکیٹیکٹ ہیںآ انھوں نے مجھے اپنی پھپو کے گھر کی تصویریں بھیجیں جو ایگ ہفتہ قبل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔
یارا کہتی ہیں ’وہ بہت خوبصورت گھر تھا، خوبصورت بنگلہ جس کے درمیان میں ایک بڑا صحن تھا۔‘
احمد کے خاندان کی طرح بیٹوں نے اپنے کنبے کے لیے اس گھر کے اوپر اپارٹمنٹس تعمیر کیے۔
،تصویر کا ذریعہALNAJJAR FAMILY
پانچ سالہ فاطمہ اور تین سال کا انس
یارا کو پتا چلا کے ان کے 20 رشتہ دار مارے گئے ہیں۔ کچھ کے جسم ملبے سے نکلے اور وزارت صحت کی فہرست میں ان کے نام آئے۔
یارا نے ہمیس فہرست کی سکرین شاٹ بھیجی جس میں پر نام پر لال نشان تھا اور اس کے ساتھ عمر لکھی ہوئی تھی۔ سما 16 سال، 14 سال کے جڑوا عمر اور فہمی، 13 سال کا عبدالرحمٰن، 10 سال کی فاطمہ اور سات سال کا عبیدہ، کزنز علیمن اور فاطیمہ دونوں کی عمر پانچ سال، یوسف چار اور سارہ اور انس تین سال کے تھے۔
یارا کے دو کزنز زندہ رہ گئے ہیں لیکن انھوں نے ان کا کہا ہے کیونکہ یہ افواہ ہے کہ جو میڈیا سے بات کر رہے ہیں ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دونوں بہنیں غزہ کے مختلف حصوں میں ہیں اور وہ ایک دوسرے کے پاس جنازے یا سوگ کے لیے نہیں پہنچ سکتیں۔ ایک کزن نے یارا کو مسج کیا کہ ’محمد، ماما اور دو بچوں کی لاشیں ابھی بھی ملبے میں ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہALNAJJAR FAMILY
عبدالرحمٰن اپنے جڑوا کزن، عمر اور فہمی کے ساتھ حملے میں ہلاک ہو گئے۔ فہمی کی لاش ابھی بھی ملبے سے نہیں نکلی۔
غزہ میں کرین کو چلانے کے لیے فیول نہیں ہے اور جو کام کر بھی رہی ہیں انھیں زندہ افراد کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
جمعے کو میں احمد النوق کے ساتھ خبریں دیکھ رہی تھی۔ مرنے والوں کی فہرست سکرین پر آئی۔ میں نے ان سے پوچھا کیا ان کا خاندان اس میں ہے۔ انھوں نے کہا ’ان میں سے صرف 12‘ باقی نو ابھی تک نہیں ملے۔
بمباری کے وقت ان کی سب سے بڑئ بہن اپنے خود کے گھر میں تھیں، بعد میں انھوں نے تباہ ہوئے گھر کا دورہ کیا۔ انھوں نے احمد کو بتایا وہ زیادہ دیر تک وہاں ٹہر نہیں سکیں کیوں کہ ان سے گلتے ہوئے ماس کی بو برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
احمد مشکل سے زندہ رہ جانے والی بہنوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ اکثر فون کام نہیں کر رہے ہوتے اور وہ ان سے بات نہیں کر سکتے۔
وہ انگریزی میں اپنے جزبات سمجھانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے سینے میں دل نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ رونا بے مقصد ہے کیونکہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا، آرام سے بیٹھ نہیں سکتا۔ میں رات کو سو نہیں سکتا۔ اس احساس کو روکنے کے لیے آپ کچھ نہیں کر سکتے۔‘
،تصویر کا ذریعہAAOUQ FAMILY
جب سے حملے میں ان کے خاندان کے متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں احمد کا کہنا ہے کہ وہ سو نہیں سکتے۔ ہلاک ہونے والوں میں میں 9 سالہ سارہ، 13 سالہ رغاد اور 6 سالہ عبداللہ اور 8 سالہ اسلم شامل ہیں
احمد کہتے ہیں ان کے والد ایک رحم دل انسان تھے۔ انھوں نے ٹیکسی چلا کر بہت محنت کی اور اپنی بچوں کو اچھی تعلیم اور ان کے لیے گھر بنایا۔ وہ دیوانوں کی طرح خبریں سنتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ایک ریاستی حل ہی اس تنازعے کا حل ہیں کہاں یہودی اور فلسطینی ایک دوسرے کے ساتھ امن میں رہیں گے۔
لیکن بچ جانے والے اپنے واحد بھتیجے کے بارے میں سوچتے ہوئے احمد سوچتے ہیں، اس جنگ نے بہت سارے لوگوں کو لے لیا جو اس سے پار کرتے تھے اس کے بعد عمر کس چیز پر یقین رکھے گا؟
Comments are closed.