کراچی میں ایک طرف اسٹریٹ کرائمز اور دیگر جرائم کا واویلا ہے تو دوسری طرف اعلیٰ پولیس حکام کی جانب سے صرف کراچی کے ایس ایچ اوز کے لیے ناپ تول کا اعشاری نظام نافذ کرتے ہوئے 85 پولیس موبائلیں گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر میں ضبط کرلی گئی ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق جولائی 2022ء کے دوران پولیس موبائلوں کی رننگ اور فیول کارڈز سے نکلوائے گئے پیٹرول میں تضاد ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل صوبے بھر کی موبائلوں میں ٹریکرز لگنے کے بعد اب ہر ماہ ان گاڑیوں کی رننگ اور فیول کارڈز سے نکلوائے گئے پیٹرول کی مقدار سے موازنہ کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ٹریکر کے حساب سے پولیس موبائل اگر 100 کلومیٹر چلی ہو تو متعلقہ پولیس افسران سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ فیول کارڈ سے زیادہ مقدار میں پیٹرول کیوں نکلوایا گیا؟
پولیس ذرائع کے مطابق کراچی کے تھانوں اور دیگر افسران کی 85 موبائلوں کو اتوار کی شام مینٹیننس کے نام پر گارڈن پولیس ہیڈکوارٹرز میں بلوایا گیا، جب تمام گاڑیاں جمع ہو گئیں تو اتوار کی رات تمام گاڑیاں ضبط کر کے ڈرائیور کو واپس بھجوا دیا گیا، ان پولیس موبائلوں میں ایئرکنڈیشن نہیں ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق شدید گرمی کے دوران عدالتوں میں پیشی یا آئے روز کی میٹنگ میں جانے کے لیے بیشتر پولیس افسران ذاتی گاڑیاں بھی استعمال کرتے ہیں۔
بجٹ میں تھانوں کو دیا گیا پیٹرول ہی استعمال کیا جاتا ہے، پولیس افسران کے مطابق بجٹ کے اس پیٹرول کے فیول کارڈز ہر ماہ ہفتے سے زائد عرصے کیلئے بند بھی رہتے ہیں، ایسے میں یہی پولیس افسران اپنی جیبوں سے پولیس موبائلوں کا گشت برقرار رکھتے اور تھانوں کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔
ایک پولیس افسر کے مطابق اعلیٰ قیادت کی جانب سے یہ حساب کتاب نہیں کیا گیا کہ اس سہ ماہی کا بجٹ جاری نہ ہونے کی وجہ سے 10 ستمبر سے کراچی پولیس کا فیول بند ہے اور آج بھی پیٹرول نہ نکلوایا جاسکا مگر پھر بھی پولیس موبائلیں چل رہی ہیں۔
متاثرہ افسران کے مطابق تھانہ ایس ایچ اوز نہ جانے کس کس وقت کون کون سے اخراجات خود پورے کرتے ہیں، ایسے میں پیٹرول کا حساب زیادتی ہے۔
Comments are closed.