وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اسلحے کے زور پر افغان مسئلے کا کوئی حل نہیں، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے زیادہ کسی نے کردار ادا نہیں کیا۔
وزیرِاعظم عمران خان کے دورۂ ازبکستان کا آج دوسرا دن ہے، وہ وسطی اور جنوبی ایشیاء کے ممالک کے درمیان ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے تاشقند میں واقع کانگریس سینٹر پہنچے جہاں ازبکستان کے صدر نے ان کا استقبال کیا۔
کانفرنس سے وزیرِاعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، مجھے مایوسی ہوئی ہے کہ پاکستان پر الزام لگائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب امریکا کے سب سے زیادہ فوجی افغانستان میں تھے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دینی چاہیئے تھی، اب طالبان کیوں امریکا کی بات مانیں گے، جب افغانستان سے فوجیوں کا انخلاء ہو رہا ہے۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ گوادر پورٹ پر معاشی سرگرمیاں 2019ء سے شروع ہیں، خطے کی امن و سلامتی سب سے اہم ہے، افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیاء کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری ترجیح افغانستان میں استحکام ہے، افغانستان میں بدامنی کاا ثر پاکستان میں بھی ہوتا ہے، گوادر پورٹ پر معاشی سرگرمیاں 2019ء سے شروع ہوئیں۔
وزیرِاعظم عمران خان نے کہا کہ سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، امید کرتے ہیں کہ سی پیک علاقائی روابط میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی سے 70 ہزار سے زائد جانیں قربان ہوئیں، مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کامیاب کانفرنس منعقد کرنے پر ازبکستان کے صدر کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
Comments are closed.