Click to expand
غزہ میں جنگ نے خطے میں تشدد کو کیسے ہوا دی ہے؟
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملوں اور اسرائیل کی جانب سے جواباً غزہ کو نشانہ بنائے جانے کے بعد سے پورے مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ حماس کی کارروائی میں لگ بھگ 1300 افراد ہلاک ہوئے جبکہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 26 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس تنازع سے پیدا ہونے والی صورتحال نے پورے خطے میں بسنے والی اقوام کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ ہم نے اس خطے کے بارے میں بی بی سی کے ماہرین کی آراء کو جمع کیا ہے تاکہ آپ اپنی ضرورت کے مطابق تفصیلی مضامین کا انتخاب کر سکیں اور اس بارے میں مزید جان سکیں کہ تشدد نے ہر علاقے کو کیسے متاثر کیا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ غزہ کی جنگ کے مشرق وسطیٰ میں کہیں اور پھیلنے کے خطرے کے بارے میں بات کرنا بند کر دی جائے کیونکہ ایسا پہلے ہی ہو چکا ہے۔ حوثیوں نے فوری طور پر جواب دینے کا عزم کیا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ عراق اور شام میں ایران نواز ملیشیا خطے میں امریکی افواج کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر دیں۔
انٹرنیشنل ایڈیٹر
غزہ
اسرائیلی فوجی گاڑیاں غزہ کی پٹی سے نکل رہی ہیں۔ کریڈٹ: رائٹرز
غزہ اس وقت تشدد کا مرکز بنا ہوا ہے اور اسرائیل نے حماس کا خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ غزہ کو کنٹرول کرنے والے فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے بارے میں مزید جاننے کے لیے درج ذیل مضمون کو پڑھیں اور جانیے کہ اس تنظیم کے اہم رہنما کون ہیں۔
پڑھیے: حماس کے اہم رہنما کون ہیں؟
اور اس بارے میں مزید سمجھنے کے لیے کہ حماس کی مالی مدد کیسے کی جاتی ہے، پڑھیں کہ ہم اس گروپ کی غیر ملکی فنڈنگ، عطیات، ٹیکس اور کرپٹو کرنسی کے بارے میں کیا جانتے ہیں:
پڑھیے: حماس کو اپنے اخراجات کے لیے مالی مدد کہاں سے ملتی ہے؟
لبنان کا نقشہ
اسرائیل اور غزہ کے درمیان تنازع جب شروع ہوا تو ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ لبنان کے ساتھ سرحدی علاقے میں تناؤ کے سبب یہ جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ حزب اللہ ایک شیعہ مذہبی، عسکری اور فلاحی تنظیم ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔ حزب اللہ لبنان میں خاصی طاقت رکھتی ہے اور اسے مغربی اور عرب ریاستوں نے ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔ غزہ میں جنگ کی ابتدا سے ہی حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ لبنان کے سرحدی علاقوں میں جھڑپوں میں مصروف تھی۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازع کی بھی ایک تاریخ ہے جو کہ دہائیوں پر محیط ہے۔
پڑھیے: حزب اللہ کیا ہے
اس جنگ سے اسرائیل اور لبنان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگ کیسے متاثر ہوئے؟
- اقوامِ متحدہ کی جانب سے جنوری 2024 میں جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل اور حماس جنگ کی ابتدا کے بعد اب تک لبنان اور سرائیل کے سرحدی علاقوں میں تقریباً 82 ہزار افراد بےگھر ہو چکے ہیں۔
- ان سرحدی علاقوں میں تقریباً 20 افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ آنے والے دنوں میں جنوبی لبنان اور شمالی اسرائیل میں صورتحال ایسے ہی رہے گی یا مزید شدت اختیار کر جائے گی۔
فریقین کا اب تک یہ کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جنگ نہیں لڑنا چاہتے۔ لیکن وہ اس جنگ سے ڈرتے بھی نہیں اور کسی بھی جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔
بی بی سی ورلڈ سروس، بیروت
غربِ اردن
غزہ میں جنگ کی شروعات کے بعد مقبوضہ غربِ اردن میں فلسطینیوں کے خلاف یہودی آبادکاروں کی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ان آبادکاروں کی جانب سے اب تک آٹھ فلسطینیوں کو قتل اور 80 کو زخمی کیا جا چکا ہے۔ تقریباً 357 افراد اسی دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ گذشتہ برس دسمبر کے شروع میں ہم نے ایک ایسے فلسطینی کارکن سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد انھیں گھر سے اُٹھا لیا گیا اور 10 گھنٹے قید میں رکھا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے کچھ افراد اُن کے آبادکار پڑوسی تھے۔ بعد میں ایک فوجی کو عیسیٰ امرو پر تشدد کرنے کے الزام میں دس دن قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔
فلسطینیوں کی اکثریت اپنے گھروں سے ہی باہر نہیں نکلتی کیونکہ وہ خوفزدہ ہیں۔
بیت الخلیل میں انسانی حقوق کے کارکن
حوثی اور بحیرۂ احمر
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے پاس یمن کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول ہے۔ انھوں نے اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کی ابتدا کے بعد بحیرۂ احمر میں اسرائیل کی طرف جانے والے جہازوں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔
پڑھیے: حوثی باغی کون ہیں اور وہ بحیرۂ احمر میں جہازوں پر حملے کیوں کر رہے ہیں؟
پڑھیے: کیا حوثیوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جو وہ نہیں جیت سکتے؟
بحیرۂ احمر میں حالیہ تصادم
- جنوری 2024: امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی آماجگاہوں کو نشانہ بنایا۔ حوثیوں نے جہازوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں برطانوی اور امریکی فوجی جہاز بھی شامل ہیں۔
- 27 جنوری 2024: اردن میں حوثیوں کے ایک ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
- 31 دسمبر 2024: امریکی بحریہ کے ہیلی کاپٹروں نے حوثی باغیوں کی تین سپیڈ بوٹس کو نشانہ بنایا۔ یہ باغی ایک مال بردار جہاز پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
- 12 دسمبر 2023: حوثیوں نے ناروے کے ایک ٹینکر پر میزائل داغے جس کے سبب اس میں آگ لگ گئی۔
اگر ایران اور اس کے اتحادی بشمول حماس اس جنگ کو مغربی دنیا تک لے جانا چاہتے تھے تو امریکہ اور برطانیہ کے حوثیوں پر حالیہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے ہیں۔
لیکن کیا جنگ کے دائرے کو بڑھانا ایران کے مفاد میں ہے؟
مختصر مدت کے لیے ایران کا مقصد یہ ہے کہ وہ مغربی ممالک کو اسرائیل کی حمایت ترک کرنے پر مجبور کرے۔
بی بی سی، فارسی
ایران
ایران نے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ تین جنوری کو جنوبی ایران کے علاقے کرمان میں ایک دھماکے میں 84 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس مقام پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایران کے سابق جنرل قاسم سلیمانی کی برسی منانے کے لیے جمع ہوئی تھی جو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔ ایران نے ابتدا میں کرمان میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری امریکہ اور اسرائیل پر عائد کی تھی لیکن بعد میں اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔
بی بی سی کے فرینک گارڈنر کہتے ہیں اسرائیل کی جانب سے یہ حملے کرنے کی کوئی تُک نہیں بنتی لیکن ایران کی جانب سے اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں یقیناً خطے میں کشیدگی کا باعث بنیں گی۔
خطے کی سیاست میں ایران کے کردار کے بارے میں ہمارے پاس یہ تفصیلی مضمون موجود ہے
پڑھیے: کیا مشرقِ وسطیٰ کا تنازع مذہبی اختلافات سے زیادہ طاقت کی جدوجہد بن گیا ہے؟
عراق
جنوری 2024 میں امریکہ نے عراق میں ایرانی حمایتی یافتہ گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کیں۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ یہ فضائی حملے عراق اور شام میں امریکی اور بین الاقوامی افواج پر ہونے والے حملوں کے جواب میں کی گئیں تھیں۔ عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کا کہنا ہے غزہ میں جاری جنگ خطے میں کشیدگی کا باعث ہے، ایران حماس جبکہ امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے۔ غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد اب تک عراق او شام میں امریکی فوج پر کم و بیش 150 حملے ہوچکے ہیں جس میں راکٹ اور ڈرون حملے شامل ہیں۔
پڑھیے: امریکہ عراق میں کسے نشانہ بنا رہا ہے؟
.card{border-radius:1rem;box-shadow:0 4px 8px 0 rgba(0,0,0,0.16);margin:2rem auto;overflow:hidden;padding-bottom:1rem;max-width:800px}.card p,.card ul,.card ol{padding:0 1.5rem;margin:0.5rem auto}.card__topper{background-color:#b80000;height:0.75rem;color:#fff}.card .intro{margin:1.5rem auto 0.5rem}.card .intro-card__topper{padding:0.75rem 1.5rem;height:auto;text-align:center}.card .intro-card__topper h2{margin:0;text-transform:uppercase}@media (min-width: 600px){.card .intro-card__topper h2{margin-left:0.5rem;font-size:1.25rem}}.card h3{font-size:1.5rem;line-height:1.75rem;margin:1.5rem auto 1rem;padding:0 1.5rem}.card img{margin:0;width:100%}.card .highlight–italic{font-style:italic}.card .highlight–bold{font-weight:bold}.card .blockquote{text-align:center;margin:2.5rem auto 2rem;font-family:ReithSerif, Helvetica, Arial, freesans, sans-serif;font-weight:300;position:relative}.card .blockquote__value{font-size:2rem;line-height:1.25em;padding:0;font-style:italic;text-align:center}.card .blockquote__name{font-size:1.5rem;padding:0 1.5rem;margin-bottom:0.5rem;display:block}.card .blockquote__description{font-weight:normal;color:#6e6e73;font-size:1.5rem;padding:0 1.5rem;margin-top:0;display:block;text-wrap:balance}.bbc-news-vj-direction–rtl .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–afrique .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–amharic .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–arabic .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–bengali .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–burmese .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–gujarati .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–hindi .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–indonesia .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–korean .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–persian .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–pidgin .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–punjabi .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–serbian .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–sinhala .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–tamil .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–telugu .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–yoruba .card .blockquote,.bbc-news-vj-language–zhongwen .card .blockquote{font-family:inherit}@-moz-keyframes gel-spin{0%{-moz-transform:rotate(0deg)}100%{-moz-transform:rotate(360deg)}}@-webkit-keyframes gel-spin{0%{-webkit-transform:rotate(0deg)}100%{-webkit-transform:rotate(360deg)}}@-ms-keyframes gel-spin{0%{-ms-transform:rotate(0deg)}100%{-ms-transform:rotate(360deg)}}@keyframes gel-spin{0%{transform:rotate(0deg)}100%{transform:rotate(360deg)}}.bbc-news-visual-journalism-loading-spinner{display:block;margin:8px auto;width:32px;height:32px;max-width:32px;fill:#323232;-webkit-animation-name:gel-spin;-webkit-animation-duration:1s;-webkit-animation-iteration-count:infinite;-webkit-animation-timing-function:linear;-moz-animation-name:gel-spin;-moz-animation-duration:1s;-moz-animation-iteration-count:infinite;-moz-animation-timing-function:linear;animation-name:gel-spin;animation-duration:1s;animation-iteration-count:infinite;animation-timing-function:linear}
@font-face{font-family:’Qalam’;src:url(“https://gel.files.bbci.co.uk/qalam/r1.100/BBCReithQalam_W_Rg.woff2”) format(“woff2”),url(“https://gel.files.bbci.co.uk/qalam/r1.100/BBCReithQalam_W_Rg.woff”) format(“woff”);font-weight:400;font-style:normal;font-display:swap}@font-face{font-family:’Qalam’;src:url(“https://gel.files.bbci.co.uk/qalam/r1.100/BBCReithQalam_W_Bd.woff2”) format(“woff2”),url(“https://gel.files.bbci.co.uk/qalam/r1.100/BBCReithQalam_W_Bd.woff”) format(“woff”);font-weight:700;font-style:normal;font-display:swap}.bbc-news-vj-wrapper{font-family:Qalam, Arial, Verdana, Geneva, Helvetica, sans-serif}
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.