بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اسرائیلی وزیر خارجہ کا دورہ یو اے ای: کیا یہ عرب دنیا سے گہرے تعلقات کا اشارہ ہے؟

اسرائیلی وزیر کا متحدہ عرب امارات کا دورہ، کیا دونوں ممالک کے مابین گہرے تعلقات کا اشارہ ہے؟

  • سمیر ہاشمی
  • مشرق وسطی میں بزنس کے نمائندے

متحدہ عرب امارات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیل کے وزیر خارجہ يائير لابيد آج دو روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچ رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کے اس دورے کو عرب دنیا کے لیے بالعموم اور یو اے ای کے لیے بالخصوص ایک ‘اہم لمحہ’ قرار دیا جا رہا ہے۔

اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے نو ماہ قبل اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی غرض سے ایک ‘تاریخی معاہدے’ پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے بعد یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر کا یو اے ای کا پہلا دورہ ہو گا۔

دو روزہ دورے کے دوران اسرائیلی وزیر خارجہ اپنے اماراتی ہم منصب شیخ عبد اللہ بن زاید النہیان سے ملاقات کریں گے۔ وہ ابوظہبی اور دبئی میں اسرائیلی سفارت خانے اور قونصل خانے کے دفاتر کا افتتاح بھی کریں گے۔

اس دورے کی عرب دنیا کے لیے نہ صرف علامتی اہمیت ہے بلکہ مئی میں اسرائیل، غزہ تنازع کے بعد یہ دونوں فریقوں کے مابین پہلا باقاعدہ سرکاری رابطہ ہو گا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل، حماس تنازع کے دوران غزہ میں کم از کم 256 افراد مارے گئے جبکہ اسرائیل میں 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسرائیل، حماس کے درمیان 11 روزہ تنازع متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے حال ہی میں قائم ہونے والے تعلقات کے لیے ایک امتحان تھا، خصوصاً جب یو اے ای نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور معاہدے میں اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے کو اپنے سے ملحق کرنے کے ایک موقع کے طور پر پیش کیا تھا، جس کی فلسطین نے شدید مخالفت کی تھی۔

لڑائی کے آغاز میں متحدہ عرب امارات نے مشرقی بیت المقدس کے اُن گھروں سے فلسطینیوں کے ممکنہ انخلا کی مذمت کی تھی جن پر یہودی آباد کار اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ اسرائیل اور فلسطین کی کشیدگی کا محور ہے۔ تنازعے کے دوران متحدہ عرب امارت نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے کا حل تلاش کرے۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم کشیدگی کے دوران غزہ پر کیے جانے والے حملوں کی شدت کو کم کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات، اسرائیل پر سفارتی طور پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتا تھا۔

متحدہ عرب امارات جیسی ریاست، جہاں مطلق العنان حکمراں ہوتے ہیں، میں متنازع سیاسی اُمور پر عوامی آرا کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن اسرائیل، فلسطین تنازع کے دوران یہاں کے شہری سوشل میڈیا پر اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت کرتے نظر آئے۔

اس کے باوجود دبئی میں مقیم سیاسیات کے ماہر عبدالخالق عبد اللہ کا خیال ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ کے تاریخی دورے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے صورتحال پر قابو پا لیا ہے۔

‘انھوں نے دو طرفہ تعلقات کا اپنا پہلا امتحان پاس کیا ہے اور یہ ان کے دیرپا تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘متحدہ عرب امارات نے دو راستے اختیار کیے ہیں: پہلا تعلقات کی بحالی ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اب بھی فلسطینیوں کے اپنی ریاست کے حق کی حمایت کرتا ہے۔’

علاقائی عزائم

جب گذشتہ سال تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مقاصد مختلف تھے۔ ابوظہبی کے نقطہ نظر سے سکیورٹی ان کے فیصلے کا محور تھی جبکہ اسرائیل کے لیے متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاشی تعاون اور ایک عرب ریاست کی طرف سے قبولیت، اِس کے اصل محرکات تھے۔

‘ابراہم ایکارڈز’ کے نام سے کیے جانے والے اس معاہدے کے فورا بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے متحدہ عرب امارات کو 50 جدید ترین ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت کی اجازت دی۔ یہ متحدہ عرب امارات کے لیے ایک بڑی بات تھی، کیونکہ یہ طیارے نہ صرف اس کی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے بلکہ اس سے یو اے ای کو خطے میں ایک سٹریٹجک برتری بھی حاصل ہو گی۔

F-35 fighter plane pictured with a US flag (file photo)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کویت کے کارنیگ مڈل ایسٹ سینٹرسے وابستہ بدر الس سیف کے مطابق، اسرائیل کے ساتھ معاہدہ متحدہ عرب امارات کے عالمی سطح پر ایک اہم جیو پولیٹیکل کھلاڑی ہونے کے طویل مدتی عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘اس معاہدے کے ذریعے متحدہ عرب امارات خطے میں سلامتی کو لے کر اپنا قد بلند کرنے کے لیے ایک جوا کھیل رہا ہے۔’

‘یو اے ای کے حکمرانوں نے مملکت کو ایک اہم معاشی مرکز بنا لیا ہے لیکن اب وہ مشرق وسطی کے اہم رہنما بننا چاہتے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہونے کے بعد سے معاشی شراکت داری عروج پر پہنچی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان صحت عامہ، مصنوعی ذہانت، دفاع اور سفر سمیت متعدد شعبوں میں کاروباری معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

اپریل میں ابوظہبی کے خودمختار ویلتھ فنڈ، موبادلا انوسٹمنٹ نے اسرائیلی قدرتی گیس کے فیلڈ میں حصص خریدنے کے لیے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جن کی مالیت 1.1 بلین ڈالر (790 ملین؛ 922 ملین ڈالر) بنتی ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ دونوں ممالک کے مابین اب تک کا سب سے بڑا معاہدہ ہو گا۔

طیارہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اگر تجارتی تعلقات کی بات کی جائے تو ابتدائی طور پر اسرائیل فاتح رہا ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے اکنامکس اینڈ انرجی پروگرام کی ڈائریکٹر کیرن ینگ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سرمایہ کاری کی مجموعی مالیت ستمبر 2020 اور مارچ 2021 کے درمیان 80 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی مدت کے دوران اسرائیل کی جانب سے متحدہ عرب امارات میں 25 ملین ڈالر سے بھی کم کی سرمایہ کاری ہوئی۔

اسرائیل میں اماراتی سرمایہ کاری سرکاری اداروں نے کی ہے۔ اور حالیہ اسرائیل فلسطین کشیدگی کے بعد ینگ کو توقع ہے کہ یہ رجحان برقرار رہے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘مئی میں جو کچھ ہوا اس نے متحدہ عرب امارات میں بہت سارے ایسے نجی کاروبار بند کردیے جو شاید اسرائیل میں سرمایہ کار بننے پر راضی ہوچکے ہیں۔’

اگرچہ متحدہ عرب امارات کے نجی سرمایہ کار اسرائیل میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، اس کے باوجود ینگ کا خیال ہے کہ ریاستی اداروں کی طرف سے خاص طور پر ٹیکنالوجی، دفاع، پانی اور خوراک میں سرمایہ کاری جاری رہے گی کیونکہ یہ شعبے متحدہ عرب امارات کی حکومت کی ترجیح ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اس تعلق کو آگے بڑھانے میں مشکلات پیش آتی رہیں گی جس میں سرمایہ کارانہ تعلقات کی بحالی بھی شامل ہے لیکن وہ کوششیں جاری رکھیں گے کیونکہ متحدہ عرب امارات کی حکومت اس کے لیے بہت پرعزم ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.