اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اسد عمر کی تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے میں ضمانت کنفرم کر دی۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت اسلام آباد کے جج راجہ جواد عباس حسن نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا۔
دورانِ سماعت نئے تعینات پراسیکیوٹر کی جانب سے اسد عمر کی ضمانت کی درخواست پر دوبارہ دلائل دیے گئے۔
پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ ملزم اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھے، جوڈیشل کمپلیکس کے باہر موجود نہ ہونے کے باوجود بھی ضمانت نہیں دی جا سکتی، ملزم پر اشتعال دلانے کے الزامات ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ اشتعال دلانے کا الزام ہے تو حراست میں لینا کیوں ضروری ہے؟
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ انویسٹی گیشن کے لیے اسد عمر پولیس کو درکار ہیں، جوڈیشل کمپلیکس اور ہائی کورٹ کے درمیان فاصلہ 1 کلو میٹر کا ہے، ملزم آسانی سے جائے وقوع سے ہائی کورٹ پہنچ سکتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ میڈیا کے لوگ بھی بڑی تعداد میں اس روز جائے وقوع پر موجود تھے۔
اسد عمر کے وکیل نے کہا کہ گھروں میں بیٹھے کچھ لوگوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کر دی گئیں، اسد عمر اس دن جوڈیشل کمپلیکس کے روڈ سے بھی نہیں گزرے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسد عمر کی ہائی کورٹ میں موجودگی کے حوالے سے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیا گیا۔
Comments are closed.