اسحاق رابین: مشرق وسطی میں امن کی امید دلانے والے وزیر اعظم جن کے قتل پر اسرائیل میں جشن منایا گیا

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, پال روساس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ

یہ ایک ایسا سیاسی قتل تھا جس نے جدید تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ چار نومبر 1995 کو جب الٹرا نیشلسٹ یہودی ایگال امر نے اسحاق رابین کو دو گولیاں مار کر قتل کیا تو یہ صرف ایک انسان کی ہلاکت نہیں تھی بلکہ ایک تصور کا خاتمہ بھی تھا: یہ تصور تھا اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دائمی امن کا۔

صرف دو سال قبل اسحاق رابین نے بطور اسرائیلی وزیر اعظم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات سے ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرا کر اوسلو امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے نے ایک جانب تو کئی اسرائیلی اور فلسطینیوں کو امید کی جھلک دکھلائی وہیں دوسری جانب دائیں بازو کے اسرائیلی اور حماس کے شدت پسند اس معاہدے کے شدید مخالف بن گئے۔ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اس وقت دائیں بازو کی قیادت کرتے ہوئے اسحاق رابین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

بی بی سی کے بین الاقوامی مدیر جیریمی بوین کے مطابق اس وقت اسرائیلی شہروں میں ایسے پوسٹر چپساں کیے گئے جن میں اسحاق رابین کو یاسر عرفات جیسے کپڑے پہنا کر یا پھر جرمن نازیوں کا یونیفارم پہنے دکھایا گیا۔

اسرائیلی دائیں بازو نے اسحاق رابین کو فلسطینی علاقوں کا کنٹرول چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کرنے پر معاف نہیں کیا۔ دوسری جانب حماس نے خود کش حملوں کا آغاز کر دیا کیوں کہ ان کے نزدیک یہ معاہدہ ایک ایسی ریاست کے آگے ہتھیار پھینکنے کے مترادف تھا جس کا وجود ہی ان کے لیے ناقابل قبول تھا۔

چار نومبر 1995 کے دن کو 28 سال بیت چکے ہیں۔ اس دن اسحاق رابین ایک لاکھ افراد کے مجمعے کے سامنے تل ابیب میں امن معاہدے کا دفاع کر رہے تھے۔

وہ ان کا آخری خطاب ثابت ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں 27 سال فوج میں رہا۔ میں اس وقت لڑا جب امن کا امکان نہیں تھا۔ لیکن اب یہ امید ہے اور ہمیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان سب کے لیے جو یہاں موجود ہیں اور ان کے لیے بھی جو یہاں موجود نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ لوگوں کی اکثریت امن چاہتی ہے اور وہ امن کے لیے خطرات مول لینے کو تیار ہیں۔‘

مجمعے نے ’شر لاشالوم‘ کا گیت گانا شروع کیا جو امن کا گیت ہے۔ بعد میں اسحاق رابین کی جیب سے اسی گیت کے شعر ایک کاغذ پر درج ملے جو ان کے خون میں بھیگ چکا تھا۔ اسحاق رابین جیسے ہی سٹیج سے اترے ایگال امر نے ان کی پیٹھ پر دو گولیاں مار دی۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسحاق رابین کی جیب سے امن کے گیت کے شعر ایک کاغذ پر درج ملے جو ان کے خون میں بھیگ چکا تھا

اسحاق رابین: ایک سابق آرمی چیف جنھوں نے امن معاہدے پر دستخط کیے

اسحاق رابین اسرائیلی لیبر جماعت کے رکن تھے جو دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

اسحاق رابین نے اپنے فوجی کیریئر کا آغاز پالماچ نامی اس شدت پسند تنظیم سے کیا تھا جس نے اسرائیل کی آزادی سے قبل اہم کردار ادا کیا اور بعد میں اسے اسرائیلی ڈیفینس فورسز یعنی فوج میں ضم کر لیا گیا۔

1948 کی اسرائیل عرب جنگ کے وقت رابین ایک اہم کمانڈر تھے۔ 1967 کی چھ دن کی جنگ میں اسحاق رابین اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف تھے۔ صرف ایک ہفتے میں اسرائیل نے مصر، اردن، شام اور عراق کے اتحاد کو شکست سے دوچار کیا اور سینائی، گولان، غزہ کی پٹی اور غرب اردن پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس فتح کے بعد اسحاق رابین نے وہ کیا جو بہت سے اسرائیلی فوجی جنرل کرتے ہیں: انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔

وہ امریکہ میں اسرائیل کے سفیر بھی رہے اور 1973 میں ان کو لیبر پارٹی کا نائب منتخب کر لیا گیا۔ گولڈا میئر کے مستعفی ہو جانے کے بعد، جو 1973 کی جنگ کے بعد سیاسی طور پر کمزور ہو چکی تھیں، اسحاق رابین پہلی بار اسرائیل کے وزیر اعظم بنے۔

بہت سے اسرائیلی مورخین کے مطابق ان کے عسکری ریکارڈ کی وجہ سے ہی ان کو اوسلو امن معاہدے کی جانب بڑھنے کا حوصلہ اور عوامی حمایت ملی۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1967 کی چھ دن کی جنگ میں اسحاق رابین اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف تھے

ڈیرک پینسلر ہارورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اسحاق رابین امن کا آخری موقع ہی نہیں، سب سے بہتر موقع تھا کیوں کہ ان کا دفاعی تجربہ تھا اور ان کی ساکھ بہت اچھی تھی۔‘

اسحاق رابین نے ایک جنگ میں اسرائیل کی سربراہی تو کی تھی لیکن ان کا ماننا تھا کہ اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے مزاکرات اور بات چیت ضروری ہیں۔ اپنی اس رائے کا اظہار انھوں نے ایک تقریر میں یوں کیا تھا:

میں سیریئل نمبر 30743، ریزرو لیفٹینینٹ جنرل اسحاق رابین، اسرائیلی ڈیفینس فورسز کا سپاہی، جس نے فوجیوں کو موت کی جانب بھیجا، آج کہتا ہوں کہ ہم ایک ایسی جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں جس میں کوئی ہلاک نہیں ہو گا، کوئی زخمی نہیں ہو گا، خون نہیں بہے گا، کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ یہ واحد جنگ ہے جس میں شرکت باعث افتخار ہے اور وہ امن کی جنگ ہے۔‘

کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ڈوو ویکسمین کہتے ہیں کہ اسحاق رابین اپنے عسکری تجربے کی بنیاد پر اسرائیلی عوام کو ضمانت دے سکتے تھے کہ وہ ان کی سکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور 1991 میں میڈرڈ امن کانفرنس سے پیدا ہونے والا ماحول اسحاق رابین کے لیے سازگار تھا اور یوں وہ اوسلو امن معاہدے کے ایک اہم کھلاڑی بن گئے۔

اوسلو امن معاہدہ کیا تھا؟

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مشرق وسطی جیسی صورت حال میں مزاکرات کے لیے رازداری ضروری ہوتی ہے۔ اسی لیے فلسطینی اور اسرائیلی مزاکراتی ٹیموں نے 1993 میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں خفیہ مزاکرات کا آغاز کیا جن کے باعث اسی سال امریکہ میں وائٹ ہاوس میں پہلے اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔

امریکی صدر بل کلنٹن کے سامنے اسحاق رابین اور یاسر عرفات نے ہاتھ ملایا اور ناممکن ممکن نظر آنے لگا۔

اسحاق رابین اور یاسر عرفات کو اسرائیلی وزیر خارجہ شمون پریز کے ہمراہ 1994 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔

دوسرا معاہدہ 1995 میں ہونا تھا۔ اس سے قبل اسرائیل نے ہمیشہ پی ایل او سے مزاکرات کرنے سے انکار کیا تھا کیوں کہ وہ اسے دہشت گرد جماعت قرار دیتے تھے۔ تاہم اس معاہدے کے بعد فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اسرائیل کے نزدیک فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت بن گئی۔

جواب میں پی ایل او نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کر لیا، شدت پسندی کا راستہ ترک کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے رہنماوں کی جلا وطنی ختم ہوئی۔

اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی نیشنل اتھارٹی قائم ہوئی جسے کسی حد تک خود مختاری مل گئی۔ تاہم یہ ایک عارضی معاہدہ تھا جس کے تحت پانچ سال میں ایک مستقل حل نکالا جانا تھا۔

اس معاہدے کو 30 سال بیت چکے ہیں لیکن اس زمانے کی امید دوبارہ نہیں لوٹی۔ آج کوئی بھی اس خطے میں امن کی بات نہیں کر رہا۔

کیا اسحاق رابین کے قتل نے امن کا راستہ بند کر دیا؟

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

الٹرا نیشلسٹ یہودی ایگال امر نے اسحاق رابین کو دو گولیاں مار کر قتل کیا

ماہرین کے مطابق اسحاق رابین کے قتل نے اوسلو امن عمل کو بہت متاثر کیا۔ اسحاق رابین کے بعد شمون پریز نے حکومت سنبھالی لیکن ان کی جماعت ایک سال بعد نتن یاہو سے الیکشن ہار گئی۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ڈوو ویکسمین کہتے ہیں کہ ’نتن یاہو نے امن معاہدہ ختم تو نہیں کیا لیکن انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ فلسطینی ریاست قائم نہ ہو۔‘

تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر اورت روزن کا کہنا ہے کہ اسحاق رابین کے قتل نے اسرائیل کو ایسے ہی ہلا کر رکھ دیا تھا جیسے سات اکتوبر کو حماس کے حملے نے ہلا دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیلی دائیں بازو نے اسحاق رابین کی ہلاکت پر جشن منایا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کو ایک شخص نے فون پر بتایا کہ ’آبادکار بالکونیوں میں ناچ رہے ہیں۔‘

اس واقعے سے تین ہفتے قبل ایک 19 سالہ نوجوان ٹی وی پر آیا اور اس نے کہا کہ ’ہم اسحاق رابین کی گاڑی تک پہنچ چکے ہیں اور جلد ان تک بھی پہنچ جائیں گے۔‘ اس نوجوان کا نام اتمار تھا جو آج اسرائیل میں قومی سلامتی کا وزیر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اورت روزن کا کہنا ہے کہ ’حماس کے خود کش حملوں اور اسرائیلی دائیں بازو نے امن معاہدے کا بھی قتل کر دیا۔ اسحاق رابین کے بعد دونوں اطراف ایسے سربراہ سامنے نہیں آئے جو امن کے شعلے کو زندہ رکھ سکتے۔‘

یہ جاننا ناممکن ہے کہ اگر اسحاق رابین زندہ رہتے تو کیا ممکن ہوتا۔ مزاکرات کے دوران پیچیدہ معاملات جیسا کہ فلسطین کی ریاست کے خدوخال، فلسطینیوں کی واپسی، یروشلم کا سٹیٹس اور فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کا مستقبل طے نہیں ہو پایا تھا۔

ڈوو ویکسمین کہتے ہیں کہ ’اسحاق رابین نے خود کبھی عوامی سطح پر اعلان نہیں کیا کہ وہ فلسطین کی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ جانتے تھے کہ اس معاہدے کا منطقی انجام یہی ہو گا۔‘

کولمبیا یونیورسٹی کے مورخ رشید خالدی کہتے ہیں کہ ’اسحاق رابین نے متعدد بار اسرائیلی پارلیمان میں کہا کہ فلسطین ریاست سے کم درجہ رکھے گی اور اسرائیل ہی اردن دریا کی وادی سمیت یروشلم پر کنٹرول رکھے گا۔‘

آج اوسلو معاہدہ، جو کہنے کو اب بھی نافذ العمل ہے، اپنی اصل روح کھو چکا ہے اور امن کی جانب لوٹنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔

ڈیریک پینسلر کا کہنا ہے کہ آخری سنجیدہ کوشش شاید 2008 میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب نتن یاہو ایک بار پھر وزیر اعظم بنے تو سب ختم ہو گیا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ