
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت کرنے والا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔
سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کورٹ روم نمبر ون میں پہنچ گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس یحییٰ نے کیس سننے سے معذرت کر لی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں اب 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت تاخیر سے شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 4 ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دار و مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کر کے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب تک حکم نامہ ویب سائٹ پر نہ آ جائے جاری نہیں کر سکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکم نامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آ گیا تھا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو، علی ظفر دلائل کا آغاز کریں، آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ آگاہ کیا جائے کہ عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟ کل ہر صورت مقدمے کو مکمل کرنا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ درخواستیں سن کر معاملے کو نمٹائیں گے۔
اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی، گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہیں کی، گورنر کے انکار پر 48 گھنٹے میں اسمبلی از خود تحلیل ہو گئی، کوئی آئینی عہدے دار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کر سکتا، پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہو چکا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ گورنر کون مقرر کرتا ہے؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنر کا تقرر صدرِ مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت پر از خود اسمبلی تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمے دار ہے، اسی معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں 90 دن میں تاخیر کو جسٹیفائی کرے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا کوئی انتخابات میں تاخیر کر سکتا ہے؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کر سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے، گورنر یا الیکشن کمیشن کو عدالت انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فریقین کے کہنے پر مقدمہ مؤخر ہوا ہے؟
اظہر صدیق نے کہا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ التواء ہے اس لیے ہائی کورٹ سے مؤخر ہوا۔
علی ظفرنے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں جاری انٹرا کورٹ اپیل میں کوئی حکمِ امتناع نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا کوئی توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہو چکی ہے۔
اظہر صدیق نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہینِ عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لاہور میں انٹرا کورٹ اپیل پر اتنے لمبے التواء کی کیا وجوہات دی گئیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التواء نہیں دیا جا سکتا۔
اظہر صدیق نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التواء دیا گیا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔
وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ 14 فروری کو لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت دائر کی گئی، توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت نے معاملے پر 2 خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنے کا کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا صدرمملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا؟
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ میری معلومات میں پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدرمملکت کا خط ہائیکورٹ کے حکم کے متضاد ہے، ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا، صدرمملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنرسے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں ہوئی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتے، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے پر کوئی تیار نہیں، پہلے آپ، نہیں پہلے آپ کرکے تاخیر کی جا رہی ہے، صدر نے تاریخ مقرر کرنے کے خط میں تمام حقائق کو واضح کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا صدرسے کسی نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں یا انہوں نے ازخود ایسا کیا؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے صدرکو مداخلت کرنا پڑی، کسی نہ کسی نے تو تاریخ کا اعلان کرنا ہی ہے، اگرعدالت سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ دے گا تو اسے حکم جاری کرے گی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمہوریت میں خلا چھوڑ دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات کسی اور ادارے نے کرانے ہیں تو وہ بھی عدالت کو بتادیں۔
اس سے قبل از خود نوٹس کی آج ہونے والی تفصیلی سماعت تاخیر کا شکار ہو گئی۔
عدالتِ عظمیٰ میں از خود نوٹس کی سماعت کے لیے پہلے ساڑھے 11، پھر 12 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے جسٹس اطہر من اللّٰہ کا نوٹ بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدگی میں نہیں دیکھا جا سکتا، صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے نوٹ میں سوال کیا ہے کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟
ان کا کہنا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں جو یہ ہیں:
پہلا سوال: کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیرِ اعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟
دوسرا سوال: کیا وزیرِ اعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟
تیسرا سوال: کیا کسی بنیاد پر وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جا سکتی ہے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی 23 فروری کو سماعت کا تحریری حکم آج جاری کر دیا۔
23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں۔
جن ججز کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں ان میں جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل ہیں۔
آرڈر کے مطابق بینچ کی از سرِ نو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ میں کہنا ہے کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔
تحریری حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پر طے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ از سرِ نو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔
عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن، پی ڈی ایم کی جماعتوں سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔
فل کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو شامل نہ کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ تاحال جاری نہیں کیا گیا۔
Comments are closed.