ارجنٹینا کی بدحال معیشت کو ’ڈالرائز‘ کرنے کی گونج: کیا ایسا پاکستان میں بھی کیا جا سکتا ہے؟

dollar

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, محمد صہیب
  • عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

جنوبی امریکہ کے ملک آرجنٹینا میں ریکارڈ مہنگائی اور آئی ایم ایف قرض پروگرام کے سہارے چلنے والی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال کم و بیش پاکستان جیسی معلوم ہوتی ہے۔

تاہم وہاں اب ایک اُبھرتے ہوئے سیاست دان ہاویئر میلی کی جانب سے معاشی مسائل کا حل معیشت کی ’ڈالرائزیشن‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاویئر اگر صدر بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آرجنٹینا میں ڈالر بطور کرنسی رائج ہو جائے گی۔

ان کی جانب سے جن اقدامات کو معیشت کی بہتری کے لیے اہم قرار دیا گیا ان میں سرکاری خرچے کم کرنے، سرکاری املاک کی نجکاری اور مرکزی بینک کو ختم کرنا شامل ہیں۔

پاکستان کی طرح آرجنٹینا میں بھی ڈالر خرید کر رکھنے اور اس کے استعمال کا اتنا رواج ہے کہ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا نتیجہ معیشت کی مکمل ڈالرائزیشن میں ہی نکلنا تھا۔

ناقدین یہ سمجھتے ہیں کہ ڈالرائزیشن کے ذریعے امریکہ کا ریزرو بینک ارجنٹینا پر ضرورت سے زیادہ اثر انداز ہو گا۔

الیکشن مہم کے دوران ہاویئر کی تقاریر کا محور عوام کو ’مہنگائی سے نجات دلوانا‘ ہے۔ اس وقت آرجنٹینا میں مہنگائی کی شرح 100 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور وہاں کی مقامی کرنسی پیسو کی قدر ڈالر کے مقابلے میں اس قدر گر چکی ہے کہ اب ایک ڈالر 350 پیسو کے برابر ہے۔

اسی طرح ملک میں شرح سود بڑھا کر 118 کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

dollar

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اتوار کے پرائمری انتخابات میں جیتنے والے ارجنٹینا کے صدارتی امیدوار ہاویئر میلی سیاسی جماعت ’لا لیبرٹاڈ اوانز‘ کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے پرائمری انتخابات میں 30 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں چنانچہ انھیں آئندہ انتخابات کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

ہاویئر دراصل ایک معاشی ماہر ہیں جو سیاست میں آنے سے قبل ایک مقامی یونیورسٹی میں معاشیات پڑھاتے تھے۔ ہاویئر کو مقامی ٹی وی چینلز پر بطور ماہرِ معیشت بلایا جاتا تھا اور یہیں انھوں نے اپنے موجودہ معاشی منشور کی بنیاد رکھی تھی۔

ہاویئر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق برازیلی صدر بولسونارو سے متاثر ہیں اور ایک ایسے رہنما ہیں جنھوں نے نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔

تاہم ان کی جانب سے ڈالرائزیشن کی تجویز خاصی دلچسپ ہے اور اس سے قبل ایکواڈور سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اس پر عمل کیا جا چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ارجنٹینا کی معاشی صورتحال پاکستان سے زیادہ سنگین ضرور ہے لیکن اس میں آپ کو پاکستان سے مماثلت دکھائی دیتی ہے۔

آئیے پہلے جانتے ہیں کہ ڈالرائزیشن کیا ہے، اس پر اسے پہلے کن ممالک میں عمل کیا جا چکا ہے اور کیا اس کا نفاذ پاکستان میں ممکن ہے یا نہیں۔

havier

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈالرائزیشن کے لیے ہاویئر کا منصوبہ کیا ہے؟

ہاویئر میلی یقین دلاتے ہیں کہ ارجنٹینا کی معیشت کی ڈالرائزیشن تکنیکی طور پر ممکن ہے۔

اس کے لیے انھوں نے اعلان کیا کہ اپنے مشیروں کے ساتھ مل کر وہ صدر بننے کی صورت میں ’کانگریس سے معیشت کو ڈالرائز کرنے سے متعلق بل کے فارمیٹ پر بات چیت شروع کر رہے ہیں۔‘

اس سے قبل میلی کی جانب سے دی گئی یہ تجویز ڈھائی سال کے اندر معیشت کو ڈالرائز کرنے کی تھی لیکن حالیہ عرصے میں انھوں نے اس منصوبے کو کم سے کم وقت میں مکمل کرنے کا اعادہ کیا ہے۔

تاہم اہم بات یہ ہے کہ معیشت کی ڈالرائزیشن کے لیے کسی بھی ملک کے پاس ڈالر ہونا ضروری ہیں اور ارجنٹینا میں ان کی سخت قلت ہے۔

میلی کے مطابق اس بات کا حل ان کے پاس پہلے سے ہے۔ انھوں نے کچھ روز قبل اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا کہ ’معیشت کو ڈالرائز کرنے کے لیے ہم مذاکرات کے حوالے سے آگے بڑھ رہے ہیں، ہم نے پہلے ہی مارکیٹ ریٹ پر ڈالرز حاصل کر لیے ہیں جو معیشت کی ڈالرائزیشن کے لیے ضروری ہیں۔‘

’ہم ارجنٹینا میں مہنگائی جیسے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

امیدواروں کے مشیروں کے گروپ کے تخمینے کے مطابق اس وقت تقریباً 35 ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ اس پلان کو پیسو کی قدر میں مزید کمی کے بغیر نافذ کیا جا سکے۔ ان کے مطابق مرکزی بینک کو بند کرنے کے باعث ڈالر کو بطور کرنسی رائج کرنا آسان ہو گا اور یہ بطور بین الاقوامی ریزرو بھی جمع کیا جا سکے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی کا خاتمہ اس صورت میں ہو گا جب ہم ’سیاست دانوں سے نئے نوٹ پرنٹ کرنے والی مشین لے لیں گے۔‘

اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے لیے میلی ڈھانچے میں متعدد تبدیلیاں کرنے پر زور دیتے ہیں جن میں ریاستی اصلاحات کرنا، لیبر مارکیٹ میں لچک پیدا کرنا اور معیشت کو مزید کھولنا شامل ہیں۔ دو سرے مرحلے میں وہ مرکزی بینک کو بند کر دیں گے تاکہ ’کرنسیوں کے درمیان مقابلہ ہو۔‘

انھوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’جب آپ کرنسی کی نگرانی کرنا چھوڑ دیں گے تو آپ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ آپ سونا بھی استعمال کر سکتے ہیں، سوئس فرینک اور برطانوی پاؤنڈ بھی۔‘

اس منصوبے کا آخری مرحلہ ان کے مطابق مرکزی بینک کچھ فنڈز کا تبادلہ ہو گا جو معیشت میں ڈالر انجیکٹ کرنے کے لیے بطور قرضہ لیا جائے گا اور پھر ارجنٹائن پیسو پرنٹ کرنے والی ایجنسی بند کر دی جائے گی۔

معاشی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

اس بارے میں بی بی سی نے جن معاشی ماہرین سے بات کی ہے ان کے خیال میں یہ بہت مشکل ہے کہ معیشت کی ڈالرائزیشن کی جا سکے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو یہ معیشت کی مشکلات کا حل نہیں ہے۔

سبیسٹیئن مینیسکالڈا جو ایکوگو کنسلٹنسی کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں کہتے ہیں کہ ’ارجنٹینا کی معیشت کو ایک دن میں ڈالرائز کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ مرکزی بینک کے پاس ڈالر ہی موجود نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ معیشت کو ڈالرائز کرنے کے لیے ہمیں ڈالر خریدنے پڑیں گے لیکن کیونکہ ملک نے پہلے بہت زیادہ قرضہ لیا ہوا ہے اس لیے یہ ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ اسے مزید قرضہ ملے گا۔ انھیں اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ ڈالرائزیشن ایک کامیاب پالیسی ہو گی بھی یا نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ ایک اور ملک کی مانیٹری پالیسی کے رحم و کرم پر ہوں جو خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ کنورٹیبلٹی کے منصوبے میں پہلے بھی دیکھنا پڑا ہے اور مالیاتی خسارے یا معاشی عدم استحکام کا مسئلہ برقرار رہے گا۔ ڈالرائزنگ کوئی علاج نہیں ہے۔‘

اس کے علاوہ میلی کی جانب سے ڈالرائز کرنے سے پہلے کی جانے والی اصلاحات بھی آسانی سے لاگو نہیں ہوں گی اور سیبیسٹیئن کا کہنا ہے کہ ’یہ اصلاحات تو اچھی ہیں، اور اگر یہ لاگو ہو گئیں تو پھر ڈالرائز کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔‘

ecuador

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈالرائزیشن کیا ہے اور یہ اس سے قبل کن ممالک میں کی گئی؟

پاکستان میں جہاں معیشت ایک وقت پر ڈیفالٹ کے خطرے کا شکار تھی، مہنگائی کی شرح اب بھی خاصی بلند ہے اور اس وقت بھی ملک آئی ایم ایف قرض پروگرام کا حصہ ہے۔

اس حوالے سے ہم نے معاشی امور پر رپورٹ کرنے والے پرافٹ میگزین کے سینیئر ایڈیٹر عبداللہ نیازی اور ماہرِ معیشت ثنا توفیق سے بات کی ہے۔

عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈالرائزیشن‘ سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے ایک کرنسی کے اتار چڑھاؤ کا مکمل انحصار ڈالر کے ریٹ پر ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’یہ ایسی معیشتوں میں ہوتا ہے جن کا انحصار درآمدات پر ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ڈالر مقامی کرنسی کے متبادل کے طور پر بھی استعمال ہونے لگتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’یہ عمل ویسے تو کسی حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مرحلہ عموماً اس وقت عمل میں آتا ہے جب ایک ملک کی کرنسی وقت کے ساتھ اپنی قدر تیزی سے کھونا شروع کر دیتی ہے اور لوگ ڈالر کو مہنگائی کا توڑ یا بچت کرنے کے لیے خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہم نے پاکستان میں دیکھا ہے۔‘

’تاہم اگر یہ مرحلہ جاری رہے یہ بھی ممکن ہے کہ کاروبار بھی ڈالر میں خریدو فروخت کرنا شروع کر دیں کیونکہ مقامی کرنسی بہت تیزی سے قدر کھونا شروع کرے۔ عام طور اس کے بعد حکومت کے جانب سے سرکاری طور پر اسے ایک پالیسی کے طور پر اپنایا جاتا ہے، جیسے زمبابوے، ایکواڈور اور دیگر ممالک میں ہوا۔‘

اس سے قبل زمبابوے اور ایکواڈور سمیت دیگر ممالک میں ڈالرائزیشن کی پالیسی اپنائی جا چکی ہے۔

بیس سال پہلے ایکواڈور نے ڈالرائزیشن کا آغاز اس وقت کیا جب اس کی معیشت اس قدر گہرے بحران سے گزر رہی تھی کہ اس اقدام کو ملک کو بچانے کے لیے آخری کارڈ کے طور پر تصور کیا جا رہا تھا۔ یہاں مہنگائی کی شرح 96 فیصد تک پہنچ گئی تھی اور ایک مقامی کرنسی سوکر مکمل طور پر قدر میں کھو چکی تھی۔

اس وقت کے صدر جمیل مہاد نے ایکواڈور کی معیشت کو ڈالرائز کیا تھا اور سیاسی پولرائزیشن کے ماحول میں اس فیصلے کے باعث ان کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ ایکواڈور اس وقت معاشی اعتبار سے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مستحکم ہے اور اس کی مثال میلی بھی اپنی تقریروں میں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

pakistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا یہ پاکستان میں ممکن ہے؟

ماہرِ معیشت ثنا توفیق نے اسی نقطے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں اس وقت صورتحال اتنی سنگین نہیں ہے جتنی آرجنٹینا میں ہے اس لیے یہاں اس پالیسی کو رائج کرنے کی ضرورت فی الحال نہیں ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں اس سے قبل سی پیک کے عروج پر ملکی کرنسی کا انحصار ڈالر کی بجائے یوآن پر کرنے کے حوالے سے تجویز سامنے ضرور آئی تھی تاہم مختلف وجوہات کے باعث اس پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔‘

ثنا نے کہا کہ اس پالیسی کے فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی۔ فائدہ یہ ہے کہ ملک کی معیشت مستحکم ہو جاتی ہے اور عمومی اتار چڑھاؤ اور غیر یقینی کم ہو جاتی ہے۔

’لیکن نقصان یہ ہے کہ آپ کا تمام تر انحصار ایک دوسرے ملک کی معیشت پر ہو جاتا ہے، اور وہاں کسی وجہ سے معاشی بحران آئے تو اس کا اثر آپ کے ملک پر بھی پڑتا ہے جو ایک خطرناک پالیسی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی معیشت کے مسائل کا حل برآمدات میں اضافے میں سرکاری خرچے کم کرنے کے علاوہ دیگر اصلاحات میں ہے نہ کہ ڈالرائزیشن میں۔‘

عبداللہ نیازی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت پہلے ہی بہت حد ڈالرائز ہو چکی ہے کیونکہ اس کی کرنسی امریکی ڈالر پر منحصر ہے اور اس کی وجہ سے روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم تجارت ڈالرز میں کرتے ہیں اور حالیہ عرصے میں ہم دوسری کرنسیوں میں تجارت کر کے ’ڈی ڈولرائز کرنے کی کوشش کی ہے جیسے روسی خام تیل کی تجارت چینی کرنسی میں کی گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ عمومی طور پر ڈالرائزیشن کو بطور پالیسی پاکستان میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا اس لیے اسے سرکاری طور پر اپنانے کی بات نہیں کی گئی۔

BBCUrdu.com بشکریہ