نیویارک: اگرچہ یہ بہت چھوٹے ہیں لیکن سائنسدانوں نے ہوا میں ہولوگرافک تصاویر کو حرکت دے کر اسے ترقی دی ہے۔ تجرباتی طور پر اسٹاروار فلم کی طرح سرخ اور سبز تلواروں کے ہولوگرام ہوا میں لہرائے گئے ہیں اور یہ حرکت کرنے والے پہلے ہولوگرام بھی ہیں۔
برگھم ینگ یونیورسٹی (بی وائے یو) کے سائنسدانوں نے اس سے پہلے ہوا میں فوٹون کی بوچھاڑ بھی پیدا کی تھی جسے عام افراد کسی آلے کے بغیر باآسانی دیکھ سکتے تھے۔ بی وائے یو میں الیکٹریکل انجینیئرنگ کے پروفیسر ڈین اسمالے کہتے ہیں کہ یہ حقیقی ہولوگرام ہیں جو ہر رخ سے مختلف دکھائی دیتےہیں۔
اس تحقیق کو بین الاقوامی طور پر غیرمعمولی قرار دیا گیا ہے جس میں تین سال کی محنت لگی ہے۔ اس میں کسی اسکرین کے بغیر، ہوا میں آزادانہ تیرنے والے مناظر اور ہولوگرام دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہیں آپٹیکل ٹریپ ڈسپلے کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے لیزر سے ہوا میں ایک ذرہ قابو کیا جاتا ہے اور لیزر کی مدد سے اسے حرکت دی جاتی ہے۔ اس طرح لیزر کا روشن راستہ بن جاتا ہے۔ اس ایجاد کو روشنی بنانے والا تھری ڈی پرنٹر بھی کہا جاسکتا ہے۔
اگلے مرحلے میں یہ گروپ ہوا میں سادہ اینی میشن کا عملی مظاہرہ کرے گا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انسان ہولوگرام سے کھیلیں گے اور اس سے سیکھیں گے۔ اگرچہ تھری ڈی اشیا دیکھنے کے لیے ہم اسکرین کو دیکھتے ہیں لیکن اس بار ہوا میں تھری ڈی اشکال دیکھی جاسکتی ہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔ تجرباتی طور پر ہولوگرافک چھڑی کو انسانی انگلی سے اوپر دکھایا گا ہے جو انگلی کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی ہے۔ اگرچہ یہ ابھی بہت چھوٹے ڈسپلے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہوا میں بڑے ہولوگرافک ڈسپلے بھی بنائے جاسکیں گے
Comments are closed.