زیورخ: پاکستان میں تو یہ رحجان کم ہے لیکن امریکہ اور دیگر ممالک کے گھروں اور دفاترمیں فرش پر لکڑی کی پرت چڑھائی جاتی ہیں۔ اب لکڑی کے اس فرش پر سلیکن کی باریک تہہ چڑھا کر اس میں دھاتی آئن ملاکر اب چلتے پھرتے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔
نظری طور پر اس ماحول دوست ٹٰیکنالوجی سے یہ ممکن ہے کہ لوگوں کی چلت پھرت سے ایک ایل ای ڈی بلب بھی جلایا جاسکتا ہے۔ اس طرح کسی تقریب اور کانفرنس وغیرہ میں اس فرش اور قدموں سے اس سے بھی زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ بعض اقسام کے مٹیریئل جب دوسری قسم کے مادوں سے ملتے یا جدا ہوتے ہیں تو چارج پیدا کرتے ہیں۔ اس مظہر کو ’ٹرائبو الیکٹرک اثر‘ کہتے ہیں۔ اس میں ایک سطح سے الیکٹران اتر کر دوسرے مٹٰیریئل پر جاتے ہیں۔ جو مادہ الیکٹرون لے وہ ٹرائبو نگیٹوو کہلاتے ہیں اور جو الیکٹرون دیتے ہیں وہ ٹرائبوپازیٹوو کہلاتے ہیں۔
اسی بنا پر ای ٹی ایچ زیورخ کے پروفیسر گوئیڈو پینزراسا اور ان کے محقق ساتھیوں نے لکڑی کی ٹائل نما چادر پر سلیکن لگایا۔ اب سلیکن والی لکڑی کسی شے سے متصل ہونے پر الیکٹران لینے لگی۔ اس کے بعد دوسرے پینل میں نینوکرسٹل شامل کئے گئے۔ یہ نینو کرسٹل ’زیولیٹک آئمائی ڈیزولیٹ فریم ورک8 پرمشتمل تھے جسے مختصراً زیڈ آئی ایف ایٹ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا مرکب ہے ہے جس میں دھاتی آئن اور کچھ نامیاتی سالمات ہوتے ہیں۔ ان کرسٹلز کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ الیکٹرون کھودیتے ہیں۔ فزکس کی زبان میں یہ عمل ’فنکشنلائزیشن‘ کہلاتا ہے۔
اس طرح عام لکڑی کے مقابلے میں الیکٹرون لینے اور دینے کی شرح 80 فیصد تک بڑھ گئی اس طرح لکڑی کی دو پرتوں پر چلنے سے اتنی بجلی ضرور بنی کہ اس سے ایک ایل ای ڈی بلب جلایا جاسکتا ہے۔ اس طرح 2 سینٹی میٹر چوڑے اور 5 سینٹی میٹر لمبے لکڑی کے ٹکڑے پر جب 50 نیوٹن کی قوت لگائی جائے تو اس دباؤ سے 23 وولٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح عام اے فور کاغذ کی جسامت کی لکڑی سے چھوٹے بلب اور دیگر دستی آلات مثلاً کیلکیولیٹر چلائے جاسکتے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سلیکن کی تہہ چڑھانا ایک ماحول دوست عمل ہے اور اس سے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔
Comments are closed.