آکوس: فرانس کی امریکہ اور آسٹریلیا کے دفاعی معاہدے پر ’جھوٹ‘ کی مذمت
فرانسیسی وزیر خارجہ نے آسٹریلیا اور امریکہ کے نئے دفاعی معاہدے پر تنقید کی ہے، جس کی وجہ سے فرانس نے ان ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔
ایک انٹرویو میں یان ویس لی ڈرین نے ان ممالک پر الزام لگایا کہ ان کے ’دوہرے پن نے اعتماد توڑا ہے۔‘
آکوس دفاعی معاہدے کے ذریعے امریکہ آسٹریلیا کو جوہری ایندھن سے لیس آبدوزیں بنانے اور تعینات کرنے کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔
اس اقدام سے فرانس کا آسٹریلیا کے ساتھ اربوں ڈالر کا معاہدے ناکام ہوا ہے۔
آکوس میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ خیال ہے کہ اس دفاعی معاہدے کے ذریعے متنازع جنوبی بحیرہ چین (ساؤتھ چائنہ سی) میں چینی اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
گذشتہ ہفتے کے دوران فرانس کو عوامی اعلان سے کچھ ہی گھنٹے قبل اس بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔
سنیچر کو فرانسیسی وزیر خارجہ لی ڈرین نے اسے اتحادیوں کے مابین ’سنجیدہ بحران‘ کا نام دیا۔
انھوں نے فرانس ٹو چینل کو انٹرویو میں کہا کہ ’یہ سچ ہے کہ امریکہ اور فرانس کے تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار ہم اپنے سیفر کو واپس بلا رہے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ سیاسی اقدام ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان بحران کی شدت کو عیاں کرتا ہے۔‘
فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس دفاعی معاہدے کے ’جھوٹ‘ سے امریکہ اور آسٹریلیا نے اعتماد توڑا ہے
ان کا کہنا تھا کہ سفیروں کو واپس بلانے کا مقصد ’صورتحال کا دوبارہ جائزہ لینا ہے۔‘
مگر ان کا کہنا تھا کہ فرانس کو برطانیہ سے اپنا سفیر واپس بلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے بارہا برطانیہ پر ’مسلسل موقع پرستی‘ کا الزام لگایا۔
انھوں نے کہا کہ ’اس معاہدے میں برطانیہ تیسرے پہیے کی طرح ہے۔‘
دوسری طرف برطانیہ کی نئی وزیر خارجہ لیز ٹرس نے اخبار دی سنڈے ٹیلی گراف میں لکھے ایک مضمون میں اس معاہدے کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ برطانیہ کی جانب سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس کی بھرپور تیاری دکھاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے انڈو پیسیفک خطے میں استحکام کے لیے برطانیہ کی کوششیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ’آزادی کا تحفظ ضرورت ہے۔ اس لیے ہم دنیا بھر میں مضبوط دفاعی تعلقات بنا رہے ہیں۔‘
انپوں نے مزید کہا کہ اس کے ذریعے برطانیہ اپنے جیسے خیالات والے ممالک سے اتحاد قائم کر رہا ہے اور یہ مشترکہ اقدار اور مفادات کی بنیاد پر بنائے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اس معاہدے کا مطلب ہے کہ آسٹریلیا جوہری ایندھن والی آبدوز رکھنے والا ساتواں ملک بن جائے گا۔ اس کے ذریعے اتحادی سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت اور زیر سمندر ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کریں گے۔
اس دفاعی معاہدے سے آسٹریلیا اور فرانس کے درمیان ایک اہم معاہدہ اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ سنہ 2016 میں فرانس نے آسٹریلیا کے ساتھ 12 روایتی آبدوز بنانے کے لیے 37 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔
آسٹریلوی دارالحکومت کینبرا سے واپسی پر فرانسیسی سفیر نے کہا کہ آسٹریلیا کی جانب سے یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ ختم کرنا ’ایک بڑی غلطی ہے۔‘
دریں اثنا چین نے اس دفاعی معاہدے پر تینوں طاقتوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اب بھی ’سرد جنگ کی سوچ‘ میں ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ آئندہ دنوں میں فرانس سے روابط قائم کرے گی تاکہ اختلافات دور ہو سکیں۔
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ مریس پین نے کہا ہے کہ وہ فرانس کی ’مایوسی‘ سمجھ سکتی ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ فرانس ’ہاہمی تعلقات کے لیے ہماری قدر سمجھ سکے گا۔‘
آکوس: اس سکیورٹی معاہدے میں کیا ہے؟
امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان اس سکیورٹی معاہدے کے تحت انٹیلیجنس اور کوانٹم ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں ٹیکنالوجی اور معلومات کے تبادلے کے ساتھ ساتھ کروز میزائل کا حصول بھی شامل ہے۔
لیکن اس معاہدے کی سب سے اہم بات جوہری آبدوزیں ہیں۔ انھیں جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈلیڈے میں تیار کیا جائے گا اور ان کی تیاری کے لیے امریکہ اور برطانیہ ٹیکنالوجی اور معاونت فراہم کریں گے۔
آسٹریلین سٹریٹیجی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے دفاعی و قومی سلامتی کے ڈائریکٹر مائیکل شوبرج کا کہنا تھا کہ ’ایک ایٹمی آبدوز بہت زیادہ دفاعی صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اس خطے میں ان کے نتائج ہوں گے۔ دنیا کے صرف چھ ممالک کے پاس ایٹمی آبدوزیں ہیں۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر بھی واقعی ایک طاقتور دفاعی صلاحیت ہیں۔‘
ایٹمی آبدوزیں عام آبدوزوں کی نسبت بہت زیادہ خفیہ رہ سکتی ہیں، وہ خاموشی سے کام کرتی ہیں اور وہ آسانی سے حرکت کر سکتی ہیں اور ان کی کھوج لگانا مشکل ہوتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت کم از کم آٹھ ایٹمی آبدوزوں کے لیے مدد فراہم کی جائے گی البتہ یہ واضح نہیں کہ انھیں سروس میں کب لایا جائے گا۔ آسٹریلیا کے پاس ایٹمی انفراسٹریکچر نہ ہونے کے باعث اس عمل میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
یہ آبدوزیں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نہیں ہو گی بلکہ انھیں صرف جوہری ایندھن سے لیس کیا جائے گا۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ مورسن کا کہنا تھا کہ ’میں یہ واضح کر دوں کہ آسٹریلیا ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے یا سول جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک کی ٹیموں کے ساتھ ابتدائی مشاورت کی مدت 18 ماہ ہو گی تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ معادہ کیسے کام کرے گا اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے وعدوں کی تعمیل کو یقینی بنائے گا۔
سٹمسن سنٹر میں مشرقی ایشیا پروگرام کی شریک ڈائریکٹر ین سان کے مطابق اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ ایک غیر ایٹمی ملک کو ایٹمی صلاحیت دینے کے بڑے فیصلے پر آمادہ ہیں اور یہ ہی بات اس شراکت داری کو منفرد اور خاص بناتی ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’یہ ٹیکنالوجی انتہائی حساس ہے اور صحیح پوچھیں تو پھر یہ ہر لحاظ سے ہماری پالیسی سے استثنا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ عام حالات میں آگے بڑھے گا، ہم اسے یکطرفہ معاہدے کے طور پر دیکھتے ہیں۔`
انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے اس سے قبل صرف ایک مرتبہ سنہ 1958 میں برطانیہ کے ساتھ اس ایٹمی ٹیکنالوجی کو شیئر کیا تھا۔
Comments are closed.