آکس معاہدہ: کیا دنیا چین اور امریکہ کے درمیان ایک تباہ کن تنازعے کے قریب پہنچ رہی ہے؟

آکس

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, فرینک گارڈنر
  • عہدہ, بی بی سی نمائندہ برائے سکیورٹی امور

چین نے رواں ہفتے نام نہاد آکس معاہدے کے سرکاری اعلان پر متوقع ناراضگی کے ساتھ اپنا رد عمل بھی ظاہر کیا ہے۔

آکس (آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ) معاہدے کی تفصیلات سوموار کے روز سان ڈیاگو میں منظر عام پر آئیں، جس کے مطابق بحر ہند اور بحر الکاہل کے علاقے میں چینی فوج کی توسیع کا مقابلہ کرنے کے لیے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ نے ایک دور رس دفاعی اور سلامتی اتحاد قائم کیا ہے۔

اس سہ فریقی اتحاد کے بارے میں بیجنگ نے سنگین الزامات لگائے ہیں اور اس اتحاد کو ’خطرناک راستے پر گامزن ہونا، عالمی برادری کے خدشات کو نظر انداز کرنا‘ اور یہاں تک کہ ’ہتھیاروں کی نئی دوڑ اور جوہری پھیلاؤ کا خطرہ پیدا کرنا‘ قرار دیا ہے۔

جب سے امریکی کانگریس کی رہنما نینسی پلوسی نے گذشتہ موسم گرما میں تائیوان کا اپنا متنازع دورہ کیا، اس وقت سے چین نے مغربی اقدامات پر اسی قدر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج اور بحریہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ مغربی بحرالکاہل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ’محصور‘ محسوس کرنے لگا ہے۔

صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ چین اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرے گا اور اس کی وجہ آنے والے برسوں میں قومی سلامتی سے متعلق بنیادی خدشات ہیں۔

ایسی صورتحال میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جب برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے رواں ہفتے یہ کہا کہ سامنے ایک خطرناک دہائی ہے اور بڑھتے ہوئے سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

تو پھر آخر ہم اس مقام تک کیسے پہنچے اور کیا دنیا چین اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحرالکاہل میں ایک تباہ کن تنازعے کے قریب پہنچ رہی ہے؟

مغرب نے چین کے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔ برسوں تک مغربی ممالک کی خارجہ وزارتوں نے ایک بھولا بھالا مفروضہ بنا رکھا تھا کہ چین کی اقتصادی آزادی، معاشرے اور سیاسی آزادی کا باعث بنے گی۔

جب مغربی ملٹی نیشنل کمپنیاں مشترکہ منصوبے قائم کرنے لگیں اور کروڑوں چینی شہری اعلیٰ معیار زندگی سے لطف اندوز ہونے لگے تو یقیناً یہ دلیل سامنے آئی کہ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) آبادی پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دے گی اور کچھ معمولی جمہوری اصلاحات کی اجازت دے گی اور اس طرح چین نام نہاد ’اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کا مکمل رکن بن جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

آبدوز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آبدوز

البتہ چین ایک اقتصادی دیوقامت قوت بن گیا جو عالمی سپلائی چین کا ایک اہم، اٹوٹ حصہ ہے اور پوری دنیا کے ممالک کے لیے سب سے اہم تجارتی پارٹنر بھی ہے لیکن اس کو جمہوریت اور لبرلائزیشن کی طرف موڑنے کی بجائے، بیجنگ نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس نے مغربی حکومتوں اور اس کے بہت سے پڑوسیوں جیسے جاپان، جنوبی کوریا اور فلپائن وغیرہ کو پریشان کر دیا۔

مثال کے طور پر پریشانی کی کیا وجوہات ہیں؟ فہرست طویل ہے لیکن چین اور مغرب کے درمیان تنازعے کی اہم وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

تائیوان: چین نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ضرورت پڑنے پر طاقت کے ذریعے اس خود مختار جزیرے پر قبضہ کر لے گا جبکہ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اس (تائیوان) کے دفاع میں آئے گا حالانکہ امریکہ کی چین سے متعلق سرکاری پالیسی فوجی کارروائی کا عہد نہیں کرتی۔

بحیرہ جنوبی چین: حالیہ برسوں میں چین نے بحیرہ جنوبی چین کے کچھ حصوں کو اپنی نوآبادیات بنانے کے لیے اپنی بڑی بحریہ کا استعمال کیا اور اسے بین الاقوامی قوانین کے خلاف اپنا علاقہ کہا ہے۔

ٹیکنالوجی: چین پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ خفیہ طور پر وسیع پیمانے پر ذاتی ڈیٹا کے حصول کے ساتھ ساتھ تجارتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دانشورانہ املاک کی چوری کر رہا ہے۔

ہانگ کانگ: بیجنگ نے سابقہ برطانوی کالونی میں جمہوریت کو کامیابی سے کچل دیا اور کارکنوں کو طویل جیل کی سزائیں سنائی ہیں۔

اویغور مسلمان: سیٹلائٹ ڈیٹا اور عینی شاہدین کے اکاؤنٹس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سنکیانگ صوبے کے کیمپوں میں دس لاکھ تک اویغور مسلمانوں کو جبری نظربند کیا گیا۔

بائیڈن اور سونک

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

یہ وہ موقع تھا جب دنیا کی قدیم جمہوریتیں چین کے عزائم کو روکنے کے لیے ایک ساتھ آئيں

فوجی طور پر چین آج ایک ایسی طاقت ہے جس کا لوہا مانا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس کی فوج پیپلز لبریشن آرمی نے ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اپنی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ کیا۔

مثال کے طور پر چین کے ڈونگ فینگ ہائپرسونک میزائل ماچ 5 جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے سفر کر سکتے ہیں اور وہ زیادہ دھماکہ خیز مواد یا جوہری وار ہیڈ سے لیس ہے۔

اس بات نے جاپان کے شہر یوکوسوکا میں واقع امریکی بحریہ کے ساتویں بحری بیڑے کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ ساحل پر موجود چین کے بڑے پیمانے پر میزائلوں کی بیٹریوں تک پہنچنے کے خطرے کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔

جوہری بیلسٹک میزائلوں کے معاملے میں بھی چین نے تیزی سے توسیع کا پروگرام شروع کیا، جس کا مقصد اپنے وار ہیڈز کی تعداد کو تین گنا بڑھانا ہے کیونکہ وہ دور دراز کے مغربی علاقوں میں نئے ٹھکانے بنا رہا ہے۔

بہرحال ان میں سے کوئی بھی چیز یہ واضح نہیں کرتی کہ چین جنگ کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایسا نہیں چاہتا ہے۔ جب تائیوان کی بات آئے گی تو وہ اس پر اتنا دباؤ ڈالنے کو ترجیح دے گا کہ وہ بغیر کوئی گولی داغے بیجنگ کی حکمرانی کو تسلیم کر لے اور جہاں تک ہانگ کانگ اور اویغور کا معاملہ ہے تو وہ یہ جانتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تنقید ختم ہو جائے گی کیونکہ چین کے ساتھ تجارت باقی دنیا کے لیے بہت اہم ہے۔

لہٰذا، اگرچہ ابھی تناؤ بہت زیادہ ہے اور ٹکراؤ کے مزید مرحلے آنے والے ہیں لیکن چین اور مغرب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بحرالکاہل میں جنگ ہر ایک کے لیے تباہ کن ہو گی اور غصے میں ہونے والی بیان بازی کے باوجود یہ قطعی طور پر کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ