آمنہ مفتی کا کالم ’اڑیں گے پرزے‘: میرا بچہ ایسا کیوں ہے؟
- آمنہ مفتی
- مصنفہ و کالم نگار
ایک صاحب گھر سے نکلے، سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہوا دیکھا تو سر پیٹ لیا، ’ہائے او ربا! فیر تلکنا پئے گا!‘
پاکستان کی خارجہ پالیسی اکثر و بیشتر ایسے موڑ پہ کھڑی پائی جاتی ہے جہاں ہم جان بوجھ کے ’رپٹتے‘ اور پھر سالہا سال ٹکور کرتے پھرتے ہیں۔
جنگ ایک بھیانک چیز ہے اور وہ تمام لوگ جو اسے کسی قسم کی جی داری، فتح وغیرہ پہ محمول کرتے ہیں انسان اور انسانیت کے دشمن ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔
اب بات آتی ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی۔ حکومت چاہے کسی کی بھی رہی، ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ایک ہی رہی اور وہ تھی ’اعلی دے نوالہ‘۔
قصہ اس کا یہ ہے کہ ایک بادشاہ کا دل کسی فقیرنی پہ آ گیا اور وہ اسے ملکہ بنا کے محل میں لے گیا لیکن اس بے چاری سے کھانا نہیں کھایا جاتا تھا، سوکھ کے کانٹا ہو گئی۔
آخر ایک سیانے کو حل سوجھا اور اس نے محل میں کئی طاقوں کی ایک دیوار بنوا دی۔ ہر طاق میں ایک نوالہ رکھا جاتا تھا، ملکہ جا کے آواز لگاتی تھی، ’اعلی دے نوالہ‘، تب کہیں جا کے بے چاری کو کھانا ہضم ہوا۔
ہمیں قسمت سے آزادی تو مل گئی لیکن مانگ کے کھانے کی عادت جانے کہاں سے ایسی پڑی کہ خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی فارن فنڈنگ بن گئی۔
اگر آپ کو کبھی یہ پڑھایا یا بتایا گیا کہ مسئلہ کشمیر یا فلسطین یا امہ یا کسی بلاک میں شامل ہونا ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد تھی یا ہے تو یہ ویسا ہی مذاق تھا جیسا پاکستان کے نام کے ساتھ جمہوریہ لگا کے کیا گیا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کی ’فرسٹ لائن آف افنس این ڈیفنس‘ بنے رہنے اور مبینہ طور پہ روس کے دھرے اڑانے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم اچانک ماسکو پہنچتا ہے۔
یہ ایک ایسا وقت ہے کہ روس نہ صرف یہ کہ ایک کمزور ملک پہ حملہ کر رہا ہے بلکہ ہمارے روایتی، غیر روایتی، اخلاقی اور ہر طرح کے حلیف روس کی اس جارحیت کے خلاف ہیں اور مجھ سمیت ہر پاکستانی دل ہی دل میں تالیاں پیٹ رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہو گا ہی ورنہ یہ دورہ کیوں کیا جاتا؟
یہ بھی پڑھیے
ہم سے پچھلی نسل کے اعتقاد کے کعبے روس میں آباد تھے اور وہ موٹے موٹے روسی ناول پڑھتے تھے اور جانے کیوں ایک عجیب سے انقلاب کے خواب دیکھتے تھے۔
روس سے ہماری نہ بنی کیونکہ ہمیں امریکہ سے پیار تھا۔ ڈیرے دارنی کا یہ پیار اس وقت تک امریکہ کے وارے میں تھا جب تک اس کی خارجہ پالیسی اس کی اجازت دیتی تھی۔
افغانستان سے جاتے ہوئے امریکہ جیسے جوتے چھوڑ کے بھاگا اس سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ خطے میں صورت حال تبدیل ہونے کو ہے۔
جب تک یہ سطور آپ تک پہنچیں گی جنگ جانے کیا شکل اختیار کر چکی ہو گی؟ یوکرین ایک آزاد ریاست ہو گا یا سرحدیں ایک بار پھر تبدیل ہو چکی ہوں گی؟
آمنہ مفتی کے دیگر کالم پڑھیے
مغرب میں روس کی یہ پیش قدمی کیا پھر دنیا کو کسی عالمی جنگ میں دھکیلے گی یا نئی سرد جنگ شروع ہو گی۔ ان سب باتوں سے قطع نظر ہم سب یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں کہ لیاقت علی خان نے روس نہ جا کے جو غلطی کی تھی شاید وہ سدھر گئی ہے۔
لیاقت علی خان غلط تھے یا درست ، پاکستان کو کس بلاک میں کب جانا چاہیے تھا اور کب نہیں؟ امریکہ کی دوستی ہمیں کیا دے کے گئی اور روس سے لاتعلقی ہم سے کیا چھین کر لے گئی؟ یہ نئی دوستی ہمیں کیا دے گی ؟ اور کیا یہ دوستی واقعی دوستی ہے یا ہم فقط ’اعلی دے نوالہ‘ کی صدا لگاتے لگاتے غلط وقت پہ غلط جگہ پہنچ گئے؟
تاریخ جہاں اور بہت سے جملے اور فیصلے اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھی ہے وہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اس الل ٹپ فیصلے کی حکمت بھی واضح کر دے گی۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے دنیا کے جغادریوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی ہے کہ میدان جنگ اپنے صحن میں نہیں کسی دوسرے کے آنگن ہی میں ہونا چاہیے نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ جنگ خود جا کے لڑی جائے، پراکسی وار لڑنے والے بھی ارزاں نرخوں پہ دستیاب ہو جاتے ہیں۔
تیزی سے بدلتی اس دنیا میں ہم اپنی خارجہ پالیسی کو کن بنیادوں پہ استوار کریں بھلے 70-72 سال سے ہم اس بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہ کر سکے لیکن آخر کب تک پاکستان ایک ایسا ملک رہے گا جس کی خارجہ پالیسی اس کے قومی مفاد کی بجائے کسی اور کی خواہشات کے تابع رہے گی؟
ہم سے پچھلی نسل انقلاب کی بجائے ارتقا پہ یقین رکھتی تو شاید ’آج ہم کچھ اور ہوتے اور یہ ملک کچھ اور ہوتا۔‘
پراکسی پراکسی کھیلنے کے بعد اب ہم پھر کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑنے کے چکر میں ہیں۔
پاکستان کا جغرافیائی اور سیاسی وجود اتنا غیر اہم نہیں جس قدر احمقانہ خارجہ پالیسی ہم اپناتے رہے ہیں۔ دنیا ایک بار پھر کروٹ بدلنے کو ہے، ہمیں یہاں رک کے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا قومی مفاد کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ابھی تک جو ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے بس یہ ہی خیال آتا ہے، ’میرا بچہ ایسا کیوں ہے؟‘
Comments are closed.