آل نہیان: دنیا کے سب سے امیر اور ابوظہبی کے حکمران خاندان نے اپنی اور خطے کی قسمت کیسے بدلی؟

شاہی خاندان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

دنیا کے 25 سب سے امیر خاندانوں میں ابوظہبی کا النہیان خاندان امریکہ کے والٹن خاندان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے امیر خاندان بن گیا ہے

بلومبرگ کے مطابق سنہ 2023 کے دوران دنیا کے چند امیر خاندانوں کی دولت میں مجموعی طور پر مزید 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

ابوظہبی کے حکمران خاندان النہیان اور فرانسیسی لگژری فیشن ہاؤس ہرمیس کے مالک خاندان کی دولت میں بھی سنہ 2023 میں اضافہ دیکھا گیا۔

دنیا کے سب سے امیر خاندانوں کی لسٹ میں اس سال سرفہرست آنے والے ابوظہبی کے شاہی خاندان آل نیہان کی مجموعی دولت کی مالیت 305 ارب ڈالرز ہے اور اس نے امریکی سٹور چین وال مارٹ کے مالک والٹن خاندان کو 45 ارب ڈالرز کے فرق سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

گذشتہ پانچ برس میں پہلی بار کوئی وال مارٹ کے مالک والٹن خاندان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کے امیر ترین خاندانوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔

آل نیہان نہ صرف متحدہ عرب امارات کی تیل کی دولت سے مالا مال ریاست ابوظہبی کا انتظام سنبھالتا ہے بلکہ یہ دنیا کے مقبول ترین فٹبال کلب مانچسٹر یونائیٹیڈ کا مالک بھی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس فہرست میں قطر کے التھانی خاندان نے بھی پانچویں نمبر پر اپنی جگہ بنائی ہے۔

شاہی خاندان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خیال کیا جاتا ہے کہ بلومبرگ کی اس فہرست میں شامل خلیجی خاندانوں کے پاس اصل دولت تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔

بلومبرگ کے مطابق ابوظہبی کے اس شاہی خاندان کے زیر انتظام کاروباری حصص کمپنی انٹرنیشنل ہولڈنگ کے حجم میں گذشتہ چار برس کے دوران تقریباً سات ہزار فیصد اضافہ ہوا۔

تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی خاندان نے نہ صرف اپنی دولت بلکہ خطے کی معیشت کا رخ بھی موڑا ہے۔

شاہی خاندان النہیان کی مختصر تاریخ

شاہی خاندان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے ایک ابوظہبی، ملک کا دارالحکومت ہے اور یہاں تیل کے ذخائر کی اکثریت پائی جاتی ہے۔

حکمران النہیان خاندان یہاں تیل کی دریافت سے کئی دہائیوں پہلے سے یہاں حکمرانی کر رہا ہے مگر آج سے چند دہائیاں قبل ابو ظہبی کا النہیان خاندان اتنا امیر نہیں تھا۔ متحدہ عرب امارات اور النہیان خاندان کی امارات کی کہانی کا آغاز 1960 کی دہائی میں ہوا جب اس خطے سے تیل کی دریافت ہوئی۔

اس سے پہلے ملک کی بیشتر آبادی کے پاس بنیادی سہولیات کی کمی تھی مگر تیل کی دریافت کے فوراً بعد ابوظہبی کے اس وقت کے شاہ شیخ زید بن سلطان النہیان نے ملک کی تقدیر بدلی اور خطے کی تمام امارات کو یکجا کر کے متحدہ عرب امارات کے نام سے ایک ملک بنایا۔

شیخ زید بن سلطان النہیان کو ’بابائے قوم‘ بھی کہا جاتا ہے اور انھیں سنہ 1971 میں ملک کا صدر بنایا گیا تھا۔ سنہ 2004 میں ان کے بیٹے شیخ خلیفہ بن زاید النہیان اپنے والد کی جگہ متحدہ عرب امارات کے رہنما مقرر ہوئے جبکہ سنہ 2022 میں برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے تعلیم یافتہ شیخ محمد بن زاید النہیان متحدہ عرب امارات کے تیسرے صدر بن گئے۔

النہیان خاندان کے دیگر افراد متحدہ عرب امارات کی حکومت اور نجی شعبوں میں کردار ادا کرتے ہیں۔

دبئی میں تعمیر کردہ دنیا کی کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ کا نام بھی متحدہ عرب امارات کے سابق صدر خلیفہ بن زید النہیان کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔

آج ابو ظہبی کا شمار دنیا کے امیر ترین شہروں اور دارالحکومتوں میں ہوتا ہے۔

شاہی خاندان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آج ابو ظہبی کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ امیر شہروں اور دارالحکومتوں میں ہوتا ہے

کچھ عرصہ قبل بی بی سی ساؤنڈ سے بات کرتے ہوئے ابوظہبی سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف محمد الفہیم نے بتایا تھا کہ یہ ابوظہبی کے حکمران زید بن سلطان ہی تھے جنھوں نے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اس خطے کی قسمت کو بدل کر رکھ دیا۔

انھوں نے بی بی سی کے ساتھ ایک دستاویزی فلم ’وٹنس ہٹسری‘ کے لیے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ تیل کی دریافت سے پہلے یہاں کی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم تھی۔ لوگوں کے پاس سر چھپانے کو صرف خیمے تھے اور وہ پینے کے صاف پانی کے لیے بھی میلوں کا سفر کرتے۔

ان کے مطابق مگر تیل کی دریافت کے بعد ابوظہبی کے دور اندیش حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان نے ریاست میں سڑکیں، ہسپتال اور عمارات تعمیر کروانا شروع کر دی۔

انھوں نے خود بھی اپنی دولت کو بڑھایا اور اپنے عوام کو بھی پیسہ کمانے کے موقع فراہم کیے۔

شاہی خاندان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ابوظہبی کے شاہی حکمران اور صدر شیخ محمد بن زید کا محل

یہ بھی پڑھیے

سنہ 1960 کی دہائی کے آخر تک برطانیہ نے جزیرہ نما عرب ممالک میں اپنی کالونیوں سے نکلنا شروع کر دیا تھا۔ ایک صدی قبل انگریز وہاں اس وقت آئے جب کچھ جنگجو قبائلی وہاں سے گزرنے والے مال بردار جہازوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔

ان پر قابو پانے کے لیے ہی انگریز وہاں آئے تھے۔ اگرچہ وہاں تیل دریافت ہوا لیکن جب انگریزوں نے وہاں رہنے میں فائدے سے زیادہ خطرہ دیکھا تو وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

اس کے پیچھے بڑی وجہ چھ امارات (دبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ) کے شیخوں کا باہمی معاملات کے تصفیہ اور ہم آہنگی کے لیے ایک کونسل بنانے کا فیصلہ تھا۔

16 جنوری 1968 کو سوئیز اور خلیج کے مشرق سے برطانوی انخلا کے اعلان کے بعد شیخ زید بن سلطان نے دیگر امارات کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔

18 فروری 1968 کو وہ دبئی کے اس وقت کے حکمران شیخ راشد بن سعید المکتوم کے ساتھ مستقبل کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے فوری طور پر دبئی گئے اور دونوں نے اپنے مابین فیڈریشن کے معاہدے پر اتفاق کیا اور ایک فیڈریشن کا مطالبہ کیا جس میں نہ صرف وہ سات امارات شامل ہوں گی جو مصالحتی ریاستوں پر مشتمل ہیں۔

ابوظہبی کے اس وقت کے امیر زید بن سلطان النہیان ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ تیل کی دریافت ہو چکی تھی، اور بڑے پیمانے پر معیشت میں سرمایہ کاری کی گئی اور عوامی پیسے کو بڑھانے کا عمل شروع ہوا۔

شیخ زید کا جوش ہی متحدہ عرب امارات کی تشکیل کا ایک اہم عنصر تھا۔ انھوں نے اپنے ساتھی حکمرانوں کے مابین اتفاق رائے اور معاہدے کے حصول کے لیے بھی حمایت حاصل کی۔

شاہی خاندان

بالآخر چھ امارات (راس الخیمہ کے علاوہ) نے متحدہ عرب امارات کے قیام میں شیخ زید کی پیروی کی اور دو دسمبر 1971 کو بین الاقوامی سطح پر متحدہ عرب امارات باضابطہ طور پر ایک ملک بن کر سامنے آیا۔

دوسری ریاستوں (امارات) کے حکمرانوں نے متفقہ طور پر شیخ زید کو متحدہ عرب امارات کا صدر منتخب کیا۔ راس الخیمہ نے 10 فروری 1972 کو متحدہ عرب امارات میں شمولیت اختیار کی۔

یہ عمل خلیج فارس کے دوسرے سنی ممالک (سعودی عرب، عمان، قطر، بحرین اور کویت) جیسا ہی تھا۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات سات آزاد ریاستوں پر مشتمل ہے جن میں ابوظہبی، دوبئی، شارجہ، ام القوین، فجیرہ، عجمان اور راس الخیمہ شامل ہیں۔ ابوظہبی متحدہ عرب امارات ک سب سے بڑی امارت (ریاست) ہے جو کہ قومی سرزمین کے 84 فیصد علاقے پر مشتمل ہے۔

’فرام ڈیزرٹس کنگڈم ٹو گلوبل پاور – دی رائز آف دی عرب گلف‘ میں مؤرخ روری ملر کا دعویٰ ہے کہ ان ممالک کی بے پناہ اقتصادی کامیابی کے پیچھے تیل کی آمدنی کو مختلف سٹیک ہولڈرز میں تقسیم کرنا اور غیر منقولہ اثاثوں جیسے کہ رئیل اسٹیٹ، آرٹ اور سٹاک میں تبدیل کرنے کی مہم کارفرما تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ