’آل صباح‘: کویت کے طاقتور شاہی خاندان کی کہانی جو ملک پر 300 سال سے حکومت کر رہا ہے
،تصویر کا ذریعہGoP
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر پیر کے روز ایک روزہ دورے پر کویت گئے جہاں انھوں نے امیر کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح کی وفات پر تعزیت کی
نگراں حکومت کی جانب سے اعلان کے بعد پاکستان میں 18 دسمبر (پیر) کو امیر کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح کی وفات پر ایک روزہ سوگ منایا گیا ہے۔ سوگ کی علامت کے طور پر سرکاری عمارتوں پر پاکستانی پرچم سرنگوں رہا جبکہ حکومت کی جانب سے کویت کے شاہی خاندان کے ساتھ اظہار تعزیت بھی کیا گیا۔
کویت کے سرکاری ٹی وی نے سنیچر کے روز اعلان کیا تھا کہ امیر کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح 86 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی موت کا اعلان ہونے سے پہلے، ملک کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اپنا باقاعدہ پروگرام نشر کرنا بند کر دیا اور قرآن کی تلاوت شروع کر دی گئی۔
کویت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق انھیں طبی پیچیدگیوں کے باعث گذشتہ ماہ کے آخر میں ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا تاہم ان کی بیماری یا موت کی وجہ کے بارے میں سرکاری سطح پر کچھ نہیں بتایا گیا۔ ان کی موت کے بعد کویت میں 40 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا جبکہ تمام سرکاری دفاتر کو تین روز کے لیے بند کر دیا گیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے شیخ نواف کو ’امریکہ کا ایک اہم پارٹنر اور سچا دوست‘ قرار دیا جنھوں نے کویت اور امریکہ کے ’دیرینہ تعلقات کو مضبوط بنانے‘ پر کام کیا۔ دوسری جانب پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر گذشتہ روز ایک دورہ تعزیتی دورے پر کویت گئے جہاں انھوں نے کویت کے نئے امیر شیخ مشعال سے تعزیت کی۔
پاکستان میں سوگ کے اعلان کے بعد سے بہت سے صارفین کویت کے شاہی خاندان اور اس سے متعلقہ عنوانات کے حوالے سے انٹرنیٹ پر مواد تک رسائی کرتے نظر آئے۔ اس رپورٹ میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کویت کا آل صباح خاندان کون ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امیر کویت شیخ نواف کے نماز جنازہ میں صرف خاندان کے افراد نے شرکت کی تھی جس کے بعد انھیں دفنا دیا گیا
سعودی عرب اور عراق کے ہمسایہ خلیجی ملک کویت پر گذشتہ 300 سال سے آل صباح خاندان کی حکومت ہے۔
کویتی آئین کے مطابق، ملک کے امیر اور ولی عہد کے القابات کی جانشینی روایتی طور پر مبارک الصباح کی اولاد تک محدود ہے۔ آج ہم جس کویت کو جانتے ہیں الصباح خاندان اس کی ترقی کے عمل کے ساتھ ساتھ رہا ہے۔
الصباح خاندان کویت کے کسی بھی منتخب ادارے سے زیادہ طاقت رکھتا ہے اور اس خاندان کے افراد کا حکومتی اور انتظامی عہدوں پر مکمل کنٹرول ہے۔
ملک میں امیر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے اور انتخابات کروانے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی معاملات پر امیرِ کویت کی رائے حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے، تاہم کویتی پارلیمان میں اپوزیشن آل صباح پر تنقید کر سکتی ہے۔
الصباح: خاندانی تاریخ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’الصباح خاندان کی بنیاد درحقیقت امیر صباح اول جابر الصباح نے رکھی تھی جنھوں نے اٹھارویں صدی کے وسط میں یعنی 1752 سے 1776 تک ملک پر حکومت کی‘
کویت پیڈیا کے مطابق، آل صباح کا تعلق ’انجا‘ سے ہے، جو مشرقی بحیرہ روم اور خلیج عرب کے علاقوں میں آباد سب سے بڑا قبائلی گروہ ہے، یہ عدنانی عرب قبیلہ ہے جو عنزہ بن اسد بن ربیعہ بن نضر بن مد بن عدنان کے نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔
کویت کی تاریخ پر کتاب ’دی اوریجن آف کویت‘ کے مطابق آل صباح خاندان بنی عتبہ قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1710 میں جب وسطی عرب میں شدید خشک سالی ہوئی تو آل صباح وہاں سے نقل مکانی کر کے جنوب علاقوں کی طرف چلے گئے اور اس کے بعد انھوں نے مختلف جگہوں پر آباد ہونے کی کوشش کی لیکن باوجوہ یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بعد میں اس خاندان نے شمالی کویت کی طرف نقل مکانی کی اور وہاں پانی کا بڑا ذریعہ تلاش کرنے کے بعد یہ قبیلہ یہیں آباد ہو گیا۔
سفر کے اس آخری مرحلے کو عربی میں ’اطابو الا الشمال‘ کہتے ہیں۔
کویت کے اس حصے میں آباد ہونے کے بعد آل صباح نے اس علاقے پر حکومت کرنا شروع کر دی۔
ایک اور تاریخی حوالے کے مطابق، الصباح خاندان نے کویت کے شمال میں آباد ہونے سے پہلے جنوبی ایران اور عراق کے مختلف علاقوں میں بھی پڑاؤ ڈالا اور پھر 17ویں صدی کے اوائل میں وہ موجودہ کویت میں آباد ہوئے۔ وہاں پر ایک صباح رہنما سنہ 1762 میں اپنی موت تک شمالی کویت پر حکومت کی۔
الصباح خاندان کی بنیاد درحقیقت امیر صباح اول جابر الصباح نے رکھی تھی جنھوں نے اٹھارویں صدی کے وسط میں یعنی 1752 سے 1776 تک ملک پر حکومت کی اور اب ان کی نسل کے 17ویں نمائندے ملک کے امیر مقرر ہوئے ہیں۔
آج کویت دنیا کا چھٹا سب سے بڑا تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی 48 لاکھ ہے جس میں سے 34 لاکھ غیرملکی ہیں جو بسلسلہ روزگار اور دیگر وجوہات کی بنا پر وہ بستے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ کی جانب سے ملنے والی ایک دھمکی کے نتیجے میں کویت کو سنہ 1899 میں برطانوی پروٹیکٹوریٹ قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت الصباح خاندان ہی کویت کے حکمران تھے۔
کویت نے سنہ 1961 میں برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کی تھی۔
شیخ نواف
،تصویر کا ذریعہAFP
شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح گذشتہ کافی عرصے سے علیل تھے
شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح کویت کے 16ویں امیر تھے جن کا شمار ناصرف ملک بلکہ خلیج کی اہم سیاسی شخصیت کے طور پر ہوتا تھا۔
شیخ نواف 25 جون 1937 کو کویت سٹی کے فریز الشیوخ میں پیدا ہوئے اور ان کی پرورش کویت سٹی کے داسمان پیلس میں ہوئی۔
اُس وقت ان کے والد شیخ احمد الجابر الصباح کویت میں برسراقتدار تھے۔ شیخ نواف ان کے پانچویں بیٹے تھے۔ انھوں نے 1950 کی دہائی میں شریفہ سلیمان الجسم الغنیم سے شادی کی جن سے ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
شیخ نواف 16 سال تک مختلف سیاسی عہدوں پر فائز رہے اور انھیں پہلی بڑی پوزیشن سنہ 1978 میں اس وقت ملی جب انھیں وزیر داخلہ بنایا گیا۔
جب عراق نے 1990 میں کویت پر حملہ کیا تو وہ کویت کے وزیر دفاع تھے۔
انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شیخ نواف کو سنہ 2006 میں ولی عہد نامزد کیا گیا تھا اور وہ مسلسل 14 سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔
ان کے سوتیلے بھائی شیخ صباح الاحمد الصباح مسلسل دس سال تک امیر رہے۔ان کی وفات کے بعد شیخ نواف 29 ستمبر 2020 کو امیر بنے۔
تب سے وہ تین سال تک تیل کی دولت سے مالا مال ملک کی قیادت کر رہے تھے۔ انہیں کویت اور عرب خطے کا ’چیف ڈپلومیٹ‘ قرار دیا جاتا تھا۔
نئے امیر شیخ مشعل الأَحمد الجابر الصَّباح
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جب شیخ نواف بیمار ہوئے تو ان کی عدم موجودگی میں امیر کویت کے زیادہ تر فرائض شیخ مشعل ہی سرانجام دے رہے تھے
شیخ نواف کی وفات کے بعد 83 سالہ شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح کو کویت کا نیا امیر نامزد کیا گیا ہے۔ وہ شیخ نواف کے کزن ہیں اور امیر بننے سے پہلے وہ ولی عہد کے عہدے پر فائز تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب شیخ نواف بیمار ہوئے تو ان کی عدم موجودگی میں امیر کویت کے زیادہ تر فرائض شیخ مشعل ہی سرانجام دے رہے تھے۔
کویتی آئین اور تخت کی جانشینی کے قانون کے مطابق، امیر مشعل ملک کے 17ویں حکمران اور ملکی تاریخ کے پانچویں حکمران ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے آئینی حلف اٹھایا ہے۔
کویت کے ولی عہد کی ویب سائٹ کے مطابق شیخ مشعل 1940 میں پیدا ہوئے تھے۔
انھوں نے المبارکیہ سکول سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ برطانیہ میں بھی زیر تعلیم رہے۔
سنہ 1960 میں گریجویشن کے بعد انھوں نے کویت کی وزارت داخلہ میں شمولیت اختیار کی اور وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
نئے امیر، جو پہلے ہی مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کویت کی سکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے لیے معلومات اکٹھا کرنے میں صرف کیا ہے۔ شیخ مشعل نے کویت کے سکیورٹی اور عسکری شعبوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
شیخ مشعل اپنے پیشرو کی وفات سے قبل نائب امیر کے عہدے پر بھی فائز تھے۔
اپنی ایک تقریر میں انھوں نے کابینہ اور پارلیمنٹ کے درمیان اتحاد قائم کرنے پر زور دیا ہے۔
Comments are closed.