اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں دوسرے وقفے کے لیے کوششیں تیز، اسماعیل ہنیہ کی قاہرہ میں ملاقاتیں

فلسطین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگرچہ اس وقت غزہ میں مکمل طور پر جنگ بندی دور دکھائی دیتی ہے تاہم کچھ تازہ پیشرفت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں وقفے کا امکان موجود ہے۔

اس معاہدے سے حماس کی عوام میں ساکھ متاثر ہو گی کیونکہ اس سے قبل حماس نے مکمل جنگ بندی تک یرغمالیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا تھا۔

تاہم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ جو زیادہ وقت دوحہ میں ہی ہوتے ہیں، اس وقت ایک اعلی سطحی وفد کے ساتھ مصر کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ عباس کامل سے بات چیت کے لیے قاہرہ آئے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جنگ میں وقفے کے لیے کتنی سنجیدگی پائی جاتی ہے۔

گذشتہ ماہ قطر اور مصر نے غزہ میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کی تھیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ حماس سنہ 2007 سے غزہ کی پٹی پر حکومت کر رہی ہے۔

اسرائیل کے مقامی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے ثالث ممالک کو جنگ میں وقفے کے لیے اپنا ایک پلان دیا ہے، جس کے مطابق 30 سے 40 یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ ان میں ترجیح زیادہ عمر کے افراد اور بیماروں کو دی جائے گی۔

یرغمالی جو حماس کی حراست میں ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کا تبادلہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں سے کیا جا سکتا ہے جنھیں گذشتہ ڈیل میں رہا ہونے والی خواتین اور نوعمروں سے زیادہ سنگین جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا اور یہ کہ جنگ بندی ایک یا دو ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے۔

اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے منگل کے روز سفارتکاروں کو بتایا کہ ان کا ملک انسانی بنیادوں پر دوسری بار جنگ میں وقفے کے لیے تیار ہے اور یہ کہ مزید یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانے کے لیے غزہ میں مزید انسانی امداد بھیجنے پر تیار ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل حماس کی طرف سے سات اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے جانے والے افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو بین یامین نے بتایا کہ ’ان یرغمال بنائے جانے والوں کی واپسی ان کی ترجیح اول ہے۔‘

انھوں نے تصدیق کی کہ نئے امن معاہدے کے سلسلے میں اسرائیل کی ایجنسی موساد کے سربراہ نے حالیہ دنوں دو بار یورپ کا دورہ کیا ہے۔ پیر کو پولینڈ میں انھوں نے اپنے امریکی ہم منصب یعنی سی آئی اے کے سربراہ اور قطر کے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے۔

اس وقت اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے جبکہ خان یونس میں اس وقت شدید زمینی جنگ کی بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

اسماعیل ہنیہ

،تصویر کا ذریعہEPA

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینئیل ہگاری نے گذشتہ رات یہ کہا تھا کہ فوجی دستے اس علاقے میں اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھا رہے ہیں۔

اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے منگل کے روز غزہ کی پٹی میں 300 اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ میں جبالیہ کے مقام پر اسرائیلی فورسز نے اس کی ایک ایمبولینس کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

اسرائیلی رہنماؤں کے خیال میں فوجی دباؤ کے ذریعے حماس کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا ہے۔ تاہم یرغمال بنائے جانے والے افراد کے اہل خانہ اسرائیل کی اس حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں۔ اس بے چینی میں اس وقت اضافہ ہوا جب جمعے کے روز اسرائیلی فوج نے ان میں سے تین یرغمالیوں کو خود گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت حماس کی حراست میں یرغمال افراد کی تعداد 100 سے زائد بنتی ہے۔ حماس نے نومبر کے آخر میں 105 عام شہریوں کو رہا کیا ہے، جس میں زیادہ تر اسرائیلی خواتین اور بچے شامل تھے۔

اس وقت غزہ میں مرنے والوں کی تعداد 20 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانیہ کے وزیرخارجہ کا مشرق وسطیٰ کا دوسرا دورہ

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون ایک ’پائیدار جنگ بندی‘ کے لیے اس ہفتے مصر اور سوڈان کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس جنگ بندی کے تحت انسانی امداد پہنچانے اور یرغمال بنائے جانے والے افراد کی رہائی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔

برطانیہ کے دفتر خارجہ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے اپنے دوسرے دورے پر لارڈ کیمرون غزہ کو امداد بھیجنے سے متعلق کوششوں کو حتمی شکل دیں گے اور ’حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ حملوں اور خطرات کا بھی سدباب‘ کرائیں گے۔

اپنے دورے سے قبل ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ کوئی بھی غیرضروری طور پر اس تنازعے کی طوالت کا قائل نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’مگر یہ اہم ہے کہ یہ جنگ بندی پائیدار ہو۔‘

اقوام متحدہ

،تصویر کا ذریعہWFP

سوڈان سے غزہ میں امداد کی پہلی کھیپ پہنچ گئی

سوڈان سے براہ راست پہلی بار 46 ٹرک 750 میٹرک ٹن خوراک لیے غزہ میں داخل ہوئے۔ اس سے قبل صرف مصر کے ذریعے ہی امداد غزہ تک پہنچانا ممکن تھا۔

اس انسانی امداد کے قافلے کو غزہ میں داخل ہونے کے لیے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور سوڈان کی حشمت چیریٹی آرگنائزیشن نے اس کا اہتمام کیا ہے۔ یہ قافلہ اسرائیل کو غزہ سے ملانے والی کریم شالوم کراسنگ سے غزہ میں داخل ہوا۔

اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ غزہ کی نصف آبادی کو فاقوں کا سامنا ہے لہٰذا فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور تمام سرحدیں فوری طور پر کھول دی جائیں۔

اقوام متحدہ بھی غزہ میں جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے 19 لاکھ افراد یا اپنے گھر سے محروم ہو گئے ہیں یا پھر وہ غزہ چھوڑ کر ہی چلے گئے ہیں۔ غزہ میں انسانی امداد نہ پہنچنے سے متعلق بھی تشویش بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس وقت غزہ میں زندگی بالکل خطرے کے دھانے پر ہے یعنی اب وہاں موجود آبادی کا زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جلد سے جلد جنگ بندی تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ